بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح مختلف مساجد میں پڑھنا


سوال

کیا تراویح ایک ہی امام کے پیچھے پڑھنی چاہیے یا مختلف مساجد میں جہاں ستائیس روزہ ہوتی ہے وہاں پڑھ سکتے ہیں ؟ کیا ثواب میں کمی ہوگی یا گناہ ہوگا؟ اور تراویح واجب ہے یا سنت مؤکدہ یا غیر مؤکدہ ؟

جواب

تراویح میں دو سنتیں ہیں: ایک یہ کہ تراویح کی نماز میں قرآن کا ختم (پڑھ کر یا سن کر) کیا جائے، اور دوسرا یہ کہ پورا رمضان آخر تک ہر رات میں بیس رکعت تراویح پڑھی جائے، لہٰذا چاہے ایک  امام کے پیچھے تراویح پڑھی جائے  یا مختلف مساجد میں پڑھی جائے دونوں جائز ہے، لیکن اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مختلف مساجد میں  پڑھنے کی صورت میں ختمِ قرآن میں خلل نہ آئے یعنی کسی مسجد میں زیادہ پڑھا گیا ہو اور کسی میں کم تو اس وجہ سے درمیان میں قرآن کا کچھ حصہ سننے سے رہ نہ جائے، ایسی صورت میں تراویح ادا کرنے کی سنت تو ادا ہوجائے گی، قرآن مجید مکمل کرنے کی سنت رہ جائے گی ؛ لہٰذا جن مساجد میں یکساں مقدار میں روزانہ تلاوت ہوتی ہو ان میں مختلف دنوں میں پڑھ سکتے ہیں، بصورتِ دیگر ایک جگہ پہلے مکمل قرآن مجید سن کر ختم کرلیں، اس کے بعد مختلف جگہوں پر تراویح ادا کرسکتے ہیں۔ نیز ختم کے بعد بھی رمضان کی آخری رات تک بیس رکعت تراویح پڑھی جائے۔

باقی افضل یہ ہے کہ اپنے محلے کی جامع مسجد میں تراویح پڑھی جائے ؛ تاکہ محلے کی مسجد آباد رہے اور جماعت بڑی ہو۔

تراویح کی نماز سنت مؤکدہ ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200978

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں