بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شوال 1445ھ 17 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تاخیر سے قرض کی ادائیگی پر مالی جرمانہ کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص یا ادارہ کسی کو قرض رقم دیتا ہےاور یہ کہتا ہے کہ اگر چالیس دن میں آپ نے یہ پیسے واپس نہ کیے تو میں آپ سے جرمانہ لوں گا اور یہ جرمانہ رقم کی صورت میں قرض کے علاوہ ہو گا۔ آیا ایسا قرض لینا یا ایسی شرط پہ قرض لے کر جرمانہ دینا یا لے کر بغیر جرمانے کے مقررہ وقت پہ واپس کر دینے کا کیا حکم ہے؟ اور آیا یہ جرمانہ اور اس قسم کا معاملہ سود کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟  براہِ کرم وضاحت کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں!

جواب

 مالی جرمانہ  لینا یا قرض کے کسی بھی معاہدہ  میں ایسی شرط رکھنا ،یا ایسی شرط پر راضی ہونا ناجائز اور حرام ہے، لہذا  چالیس دن کی مدت میں قرض واپس نہ کرنے پر جرمانہ لگانا  یعنی دی ہوئی رقم سے زیادہ وصول کرنایا اس کی شرط پر راضی ہونا بھی  جائز نہیں، اگر کسی شخص نے مذکورہ معاہدے کے مطابق قرض لیا، پھر خواہ وقت کے اندر ہی ادا کردیا تب بھی یہ سودی معاملہ اور اس پر رضامندی کے زمرے میں آئے گا۔

" والحاصل أن المذهب عدم التعزیر بأخذ المال .... لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي".

 ترجمہ:غرض یہ کہ مذہب یہ ہے کہ مال کے ذریعہ سے کسی کو سزا دینا درست نہیں ... آگے لکھتےہیں:کسی شرعی وجہ کے بغیر کسی مسلمان کے لیے   کسی کا بھی مال لینا جائز نہیں۔(ابن عابدین ،حاشية رد المحتار على الدر المختار شرح تنوير الأبصار الناشر دار الفكر للطباعة والنشر.،1421هـ - 2000م.بيروت.باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال ج۶؍ص۱۰۶) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201220

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں