بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بے وضو نماز پڑھ لی تو اب کیا کرے؟


سوال

 میں نماز کے درمیان میں تھا تو خیال آیا کہ وضو تو ہے ہی نہیں،  لیکن اور لوگ بھی نماز پڑھ رہے تھے؛ اس لیے شرم آئی اور جاری رکھی،  کیا اس پر گناہ گار ہوں گا؟  جب کہ ندامت ہے اور معافی بھی مانگ چکا ہوں!

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے لوگوں سے شرم کی بنا پر بے وضو نماز کو جاری رکھا ہے تو انتہائی سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے، فقہاءِ کرام  نے ایسے شخص (وضو نہ ہونے کا علم ہوتے ہوئے نماز ادا کرنے والے) کے کافر ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اختلاف کیا ہے، اگرچہ صحیح قول کے مطابق ایسا شخص کافر نہیں ہوتا، بہرحال سائل پر لازم ہے کہ سائل اس گناہ کبیرہ کے ارتکاب پر توبہ استغفار کرے اور اگر نماز دوبارہ ادا نہیں کی ہے تو قضا بھی کرے۔ سائل کے بقول وہ نادم بھی ہے اور معافی بھی مانگ چکا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ سے توبہ کرچکا ہے تو امید ہے کہ سچی توبہ اللہ تبارک وتعالیٰ معاف فرمادیں گے، آئندہ اس طرح کرنے سے اجتناب کیجیے۔ آئندہ اگر کبھی ایسا اتفاق ہو تو ناک اور منہ پر ہاتھ رکھ کر نکل جائیے؛ تاکہ لوگ سمجھیں کہ الٹی آ رہی ہے یا نکسیر وغیرہ جاری ہے، یا نماز کو جاری رکھے، لیکن کچھ بھی نہ پڑھے، صرف امام کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا جاری رکھے اور بعد میں وضو کرکے نماز دوبارہ پڑھ لے۔

 

فتاویٰ شامی میں ہے:

"«وبه ظهر أن تعمد الصلوة بلا طهر غير مكفر كصلاته لغير القبلة أو مع ثوب نجس، وهو ظاهر المذهب، كما في الخانية وسير الوهبانية».

«وفي كفر من صلى بغير طهارة مع العمد خلف في الروايات يسطر».

(قوله: خلف) أي اختلاف بين أهل المذهب والمعتمد عدم التكفير، كما هو ظاهر المذهب". (ج:1، ص: 114، ط: سعيد)فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144103200451

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں