بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بے نماز بیوی کا علاج


سوال

 اگر کسی کی بیوی بے نمازی ہے اور شوہر کے کہنے پر بھی نماز ادا نہیں کرتی تو شوہر کے لیے شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

شوہر کو  چاہیے کہ صدقِ دل سے اس کے لیے دعا کرے اور حکمت کے ساتھ اس کو خود بھی سمجھائے اور محلہ ہی میں کسی عالم کا بیان ہوتا ہو یا نیک خواتین جمع ہوتی ہوں وہاں پردے کے اہتمام کے ساتھ لے جائے، یا کسی دین دار سمجھ دار محرم رشتہ دار کے ذریعہ سمجھائے جس کی بات کا اس پر اثر ہو، نیز اس کے لیے اگر کسی درجہ میں سختی مفید ہو تو سختی بھی کرے؛ تاکہ وہ فرض ادا کرنے لگے۔اگر بیوی پھر بھی نماز ادا نہ کرے تو اسے طلاق دی جاسکتی ہے۔

مشکوۃ شریف ۔ امارت وقضا کا بیان ۔ حدیث 819:

"وعن عبد الله بن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ألا كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته، فالإمام الذي على الناس راع وهو مسؤول عن رعيته، والرجل راع على أهل بيته وهو مسؤول عن رعيته، والمرأة راعية على بيت زوجها وولده وهي مسؤولة عنهم، وعبد الرجل راع على مال سيده وهو مسؤول عنه، ألا فكلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته".

ترجمہ: اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " خبردار تم میں سے ہر شخص اپنی رعیت کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن ) تم سے ہر شخص کو اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہونا پڑے گا، لہٰذا امام یعنی سربراہ مملکت وحکومت جو لوگوں کا نگہبان ہے اس کو اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی، مرد جو اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اس کو اپنے گھر والوں کے بارے میں جواب دہی کرنا ہوگی، عورت جو اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے، اس کو ان کے حقوق کے بارے میں جواب دہی کرنی ہوگی، اور غلام مرد جو اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اس کو اس کے مال کے بارے میں جواب داہی کرنا ہوگی، لہٰذا آگاہ رہو! تم میں سے ہر ایک شخص نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک شخص اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہوگا ۔" (بخاری ومسلم)

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (3/ 171):
"في «العيون» : رجل له امرأة لاتصلي، فطلقها حتى لايصحب امرأة لاتصلي فإن لم يكن له ما يعطي مهرها فالأولى أن لايطلقها. قال أبو حفص الكبير البخاري رحمه الله: إن لقي الله ومهرها في عنقه أحب إلي من أن يطأ امرأة لاتصلي".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 223):
" تتعلق بالنساء: رجل له امرأة لاتصلي يطلقها حتى لايصحب امرأة لاتصلي فإن لم يكن له ما يعطي مهرها فالأولى أن لايطلقها. قال الإمام أبو جعفر الكبير صاحب محمد بن الحسن: لأن ألقى الله - ومهرها في عنقي - أحب إلي من أن أطأ امرأة لاتصلي". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200366

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں