بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی بیٹی سے طلاق یا وفات کے بعد نکاح کا حکم


سوال

ایک شخص نے ایک بیوہ/مطلقہ سے شادی کی جس کی پہلے سے ایک جوان و بالغ بیٹی بھی ہے۔ اس عورت سے علیحدگی (طلاق یا وفات) ہر دو صورتوں کے بعد کیا وہ اس عورت کی سابقہ شوہر سے بیٹی( یعنی اپنی سوتیلی بیٹی) سے نکاح کر سکتا ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص  اس مطلقہ/بیوہ سے نکاح کرنے کے  بعد ازدواجی تعلق بھی قائم کرچکا ہوتو اس کے بعد  اس عورت کی اپنی بیٹی (جو دوسرے شوہر سے ہے)  اس  شخص کے لیے ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی، اور اس سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا، خواہ اس عورت کو طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 31):
"لما تقرر أن وطء الأمهات يحرم البنات ونكاح البنات يحرم الأمهات، ويدخل بنات الربيبة والربيب" .

الفتاوى الهندية (1/ 274):
"(والثانية) بنات الزوجة وبنات أولادها وإن سفلن بشرط الدخول بالأم، كذا في الحاوي القدسي سواء كانت الابنة في حجره أو لم تكن، كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان. وأصحابنا ما أقاموا الخلوة مقام الوطء في حرمة البنات هكذا في الذخيرة في نوع ما يستحق به جميع المهر". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200255

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں