میری بیوی سے کبھی کبھی لڑائی ہوتی ہے اور پھر جب میں غصہ میں ہوتا ہوں تو بیوی کو ڈرانے یا دھمکانے کے لیے بیوی کو کہتا ہوں: "جاؤ گھر یا تو میں تیرے والد کو بولوں گا کہ اپنی بیٹی کو لے جاؤ گھر، مجھ سے تنگ ہے، روز مجھے بھی بے زار کیا".
میری نیت میں طلاق کا ارادہ نہیں، بلکہ بیوی کو ڈرانے کے لیے ایسا کہا. اس کا کیا حکم ہے؟
طلاق کی نیت کیے بغیر محض بیوی کو ڈرانے کے لیے مذکورہ جملہ ’’جاؤ گھر یا تو میں تیرے والد کو بولوں گا کہ اپنی بیٹی کو لے جاؤ گھر‘‘ بولنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008201930
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن