بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا علاج اور میکے جانے کا خرچہ


سوال

ہمارے یہاں ایک صاحب ہیں جو اکثر قرآن کی آیات اور حدیث پیش کرتےہیں اور عورتوں کے خلاف بولنے کے لیے تو  تب انہوں نے حد کی جب انہوں یہ کہا کہ شوہر پر بیوی کا علاج فرض نہیں ہے، عورت جب میکے جائے تو عورت کو میکے جانے کا کرایہ بھی مرد پر فرض نہیں ہے،  صرف روٹی کپڑا اور مکان دینا ہی شوہر کا فرض ہے اسلام کے حساب سے، کیا ہمارا دین عورتوں پر اتنا ظلم کر سکتا ہے؟ ہمارے نبی اکرم نے تو عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کو  کہا ہے، آپ مجھے اس بات کا جواب دیں،  کیا وہ جناب کی باتیں صحیح ہیں؟

جواب

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں جن نعمتوں سے نوازا ہے، ان میں سے ایک نعمت نیک اور خوش اخلاق بیوی بھی ہے،  شریعتِ مطہرہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ تم اپنی بیوی کے ساتھ حسنِ معاشرت، محبت اور الفت سے زندگی گزارو۔  ایک حدیث شریف میں ہے کہ شوہر اگر ایک لقمہ بھی محبت کے ساتھ اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے تو اس پر بھی ثواب ملتا ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں وارد ہے کہ ایک آدمی نے آپ  ﷺ سے پوچھا کہ میرے پاس ایک دینار ہے تو  آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس کو تو اپنی ذات پر خرچ کر، پھر اس نے پوچھا ایک اور بھی ہے تو  آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس کو اپنی بیوی پر خرچ کردے… الخ
ظاہر ہے کہ اگر اپنی رفیقۂ حیات کے ساتھ خوشیوں بھری زندگی گزارنی ہو تو  اس کے لیے زندگی کے نشیب و فراز، دکھ سکھ  میں بھی ایثار اور چشم پوشی سے کام لینا ہوگا، جو کہ شریعت میں عین مطلوب ہے۔اس کے برخلاف اگر ایک آدمی اپنی زوجہ کو صحت کی حالت میں تو اپنے پاس رکھے اور اس سے نفع اٹھائے اور مرض کی حالت میں بیوی سے کہے کہ تمہارا علاج کرانا یا ڈاکٹر و طبیب کے پاس لے جانا میرے ذمہ نہیں ہے تو اس سے خصوصاً اس دور میں جب کہ مزاج میں تنگی اور تلخی پیدا ہوچکی ہے، باہمی رنجشیں، عداوت، دل میں ایک دوسرے کے لیے نفرت اور امورِ خانہ داری کے درہم برہم ہونے کے بہت زیادہ امکانات بلکہ یقین ہے۔ اس لیے شریعتِ مطہرہ کی رُو سے اگرچہ قانوناً بیوی کے علاج معالجہ کی ذمہ داری شوہر پر لازم نہیں ہے، لیکن فقہاء نے اس سے پیدا ہونے والے کثیر مفاسد کو اور کثرتِ امراض کی وجہ سے علاج کے اخراجات زیادہ ہونے کو مدنظر  رکھتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ دیانۃً یہ اخراجات شوہر ہی کو برداشت کرنے ہوں گے اور نفقہ میں داخل ہوں گے۔

 نیز ہمارے عرف میں چوں کہ بیوی ان کاموں کے علاوہ جو اُس کی شرعی اور قانونی ذمہ داری میں داخل ہے وہ کام بھی سر انجام دیتی ہے جو قانوناً اور شرعاً اس پر لازم نہیں ہیں،لیکن اخلاقاً و عرفاً اس کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے ( مثلاً شوہر کے والدین کی خدمت، گھر کا کھانا پکانا، صفائی، کپڑے دھونا  وغیرہ وغیرہ)  اسی طرح شوہر کی بھی اخلاقی و عرفی  ذمہ داری ہے  کہ وہ اپنی بیوی کے علاج معالجہ کا خرچہ اور ڈاکٹر یا اسپتال لانے اور لے جانے کی ذمہ داری مکمل خوش دلی و خوش اسلوبی سے نبھائے۔ یہی تفصیل بیوی کے میکے جانے کے کرائے میں بھی ہے  عرفاً شوہر پر یہ لازم ہے کہ وہ ادا کرے۔

قال اللّٰه تعالیٰ: ﴿وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ [النساء:۱۹]

ترجمہ: اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزران کیا کرو۔ (بیان القرآن)
وقال تعالیٰ: ﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ [البقرة:۲۲۸]
ترجمہ: اور عورتوں کے بھی حقوق ہیں جو کہ مثل ان ہی کے حقوق کے ہیں جو ان عورتوں پر ہیں۔ (بیان القرآن)

نیل الاوطار (۱۲۰/۷)

"رقم حدیث۲۹۶۴:وعن أبي هریرة قال: قال رسول الله ﷺ: تصدقوا، قال رجل: عندي دینار، قال: تصدق به علی نفسك، قال: عندي دینار آخر، قال: تصدق به علی زوجتك".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 579):

"(امتنعت المرأة) من الطحن والخبز (إن كانت ممن لا تخدم) أو كان بها علة (فعليه أن يأتيها بطعام مهيإ وإلا) بأن كانت ممن تخدم نفسها وتقدر على ذلك (لا) يجب عليه ولا يجوز لها أخذ الأجرة على ذلك لوجوبه عليها ديانة ولو شريفة؛ لأنه عليه الصلاة والسلام قسم الأعمال بين علي وفاطمة، فجعل أعمال الخارج على علي - رضي الله عنه - والداخل على فاطمة - رضي الله عنها - مع أنها سيدة نساء العالمين، بحر.

 (قوله: من الطحن والخبز) عبارة الهندية: من الطبخ والخبز (قوله: فعليه أن يأتيها بطعام مهيإ) أو يأتيها بمن يكفيها عمل الطبخ والخبز، هندية (قوله: لا يجب عليه) وفي بعض المواضع: تجبر على ذلك. قال السرخسي: لا تجبر، ولكن إذا لم تطبخ لا يعطيها الإدام وهو الصحيح، كذا في الفتح.

وما نقله عن بعض المواضع عزاه في البدائع إلى أبي الليث، ومقتضى ما صححه السرخسي أنه لا يلزمه سوى الخبز، تأمل، لكن رأيت صاحب النهر قال بعد قوله: لا يعطيها الإدام، أي إدام هو طعام لا مطلقاً كما لايخفى (قوله: على ذلك) أي على الطحن والخبز (قوله: لوجوبه عليها ديانةّ) فتفتى به، ولكنها لا تجبر عليه إن أبت، بدائع (قوله: ولو شريفة) كذا قاله في البحر أخذاً من التعليل، وهو مخالف لما قبله من أنها إذا كانت ممن لا تخدم فعليه أن يأتيها بطعام وإلا لا، فلو وجب عليها ديانةً لم يبق فرق بين الصورتين، اللهم إلا أن يقال: إن الشريفة قد تكون ممن تخدم نفسها وقد لا تكون. والذي يظهر اعتبار حالها في الغنى والفقر لا في الشرف وعدمه فإن الشريفة الفقيرة تخدم نفسها، وحاله عليه الصلاة والسلام وحال أهل بيته في غاية من التقلل من الدنيا فلا يقاس عليه حال أهل التوسع تأمل. وعبارة صاحب الهداية في مختارات النوازل تؤيده حيث قال: وإن كانت تخدم نفسها فعليها الطبخ والخبز؛ لأنه عليه الصلاة والسلام..." إلخ

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 575):

"كما لا يلزمه مداواتها.

 (قوله: كما لا يلزمه مداواتها) أي إتيانه لها بدواء المرض ولا أجرة الطبيب ولا الفصد ولا الحجامة هندية عن السراج. والظاهر أن منها ما تستعمله النفساء مما يزيل الكلف ونحوه".

الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (10/ 7380):

"نفقات العلاج: قرر فقهاء المذاهب الأربعة  أن الزوج لايجب عليه أجور التداوي للمرأة المريضة من أجرة طبيب وحاجم وفاصد وثمن دواء، وإنما تكون النفقة في مالها إن كان لها مال، وإن لم يكن لها مال، وجبت النفقة على من تلزمه نفقتها؛ لأن التداوي لحفظ أصل الجسم، فلا يجب على مستحق المنفعة، كعمارة الدار المستأجرة، تجب على المالك لا على المستأجر، وكما لاتجب الفاكهة لغير أدم. ويظهر لدي أن المداواة لم تكن في الماضي حاجة أساسية، فلا يحتاج الإنسان غالبا إلى العلاج؛ لأنه يلتزم قواعد الصحة والوقاية، فاجتهاد الفقهاء مبني على عرف قائم في عصرهم. أما الآن فقد أصبحت الحاجة إلى العلاج كالحاجة إلى الطعام والغذاء، بل أهم؛ لأن المريض يفضل غالباً ما يتداوى به على كل شيء، وهل يمكنه تناول الطعام وهو يشكو ويتوجع من الآلام والأوجاع التي تبرح به وتجهده وتهدده بالموت؟! لذا فإني أرى وجوب نفقة الدواء على الزوج كغيرها من النفقات الضرورية، ومثل وجوب نفقة الدواء اللازم للولد على الوالد بالإجماع، وهل من حسن العشرة أن يستمتع الزوج بزوجته حال الصحة، ثم يردها إلى أهلها لمعالجتها حال المرض؟!" فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200400

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں