کیا بیوی شوہر سے الگ گھر کا مطالبہ کرسکتی ہے؟ نان و نفقہ میں رہائش بھی شامل ہے، لیکن رخصتی تو لڑکی کی ہوتی ہے، یہ تو کہیں بھی نہیں لکھا کہ لڑکا نکاح کے بعد اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر بیوی کو لے کر علیحدہ ہوجائے، الگ رہائش سے مراد کیا ہے پھر؟
صورتِ مسئولہ میں شوہر کے ذمہ بیوی کا نان نفقہ اور رہائش کا انتظام ہے، رہائش سے مراد ایسا کمرہ جس میں شوہر کے گھر والوں کی مداخلت نہ ہو، نیز اگر بیوی شوہر کے گھر والوں کے ساتھ مشترکہ طور پر کھانا پکانا اور کھانا نہیں چاہتی تو الگ پکانے کا انتظام کرنا ضروری ہے، یہ سہولت والدین کے ساتھ ایک ہی گھر میں فراہم کردے تب بھی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے، الگ جگہ پر گھر لے کر دینا ضروری نہیں، باقی اگر شوہر الگ گھر میں ٹھہرانے کی استطاعت رکھتا ہے اور اس میں مصلحت سمجھتا ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ اور بیوی کو مستقل رہائش دینے کی استطاعت کی صورت میں یہ لازم نہیں آتا کہ وہ والدین کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک چھوڑ دے، والدین کے حقوق جدا ہیں، اور بیوی کے حقوق جدا ہیں، حکمت کے ساتھ دونوں ادا کیے جاسکتے ہیں، ان میں تضاد نہیں ہے، نیز شوہر کے ذمے نان نفقہ اور رہائش واجب ہونے کے باوجود اگر کوئی عورت شوہر کے ساتھ رہ کر شوہر کے والدین کی خدمت کرتی ہے، ان کا خیال رکھتی ہے تو یہ اس کی سعادت ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك". (الباب السابع عشر في النفقات 1/556، ط: ماجدية)
فتاوى شاميمیں ہے:
"إن أمكنه أن يجعل لها بيتا على حدة في داره ليس لها غير ذلك". (مطلب في مسكن الزوجة 3/601، ط: سعيد) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144104200900
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن