ایک مرد فوت ہوگیا ہے اور اس کے ورثاء میں ایک اس کی بیوی ہے اور پانچ بیٹے ہیں اور پانچ بیٹیاں ہیں اور اس کی میراث میں تین مکان ہیں جن کی مالیت 2کروڑ 10 لاکھ روپے ہے۔ براہِ کرم قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ اگر مکان برابر تقسیم نہیں ہوسکتے تو اس کی قیمت کو تقسیم کرسکتے ہیں اور ہر وارث کے حصے میں کتنی مالیت آئے گی؟
صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ ورثاء کی تفصیل اگر واقعہ کے مطابق اور درست ہے اور مرحوم کے والدین اس کی زندگی ہی میں وفات پاچکے تھے تو مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ ترکہ میں سے اس کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد، مرحوم کے ذمہ اگر کسی کا قرض ہو تو اسے کل ترکہ میں سے ادا کرنے کے بعد، مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ میں ادا کرکے باقی کل منقولہ وغیر منقولہ ترکہ کو 120 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، اس میں سے 15 حصے مرحوم کی بیوہ کو، 14،14 حصے کرکے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو، 7،7 حصے کرکے مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔
یعنی 21000000 روپے میں سے مرحوم کی بیوہ کو 2625000 روپے، ہر ایک بیٹے کو 2450000 روپے، اور ہر ایک بیٹی کو 1225000 روپے ملیں گے۔نیز مکان کی قیمت لگا کر اس کو تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012201188
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن