بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، بیٹی اور نواسے میں تقسیم میراث


سوال

اکرم وفات پاگیا  اور اس نے اپنے ورثاء میں ایک زوجہ فاطمہ اور ایک بیٹی صفیہ چھوڑی ہیں، جب کہ اس کی ایک بیٹی جس کا نام نسیمہ تھا، اس سے پہلے انتقال ہوچکا ہے، اور اس بیٹی کا  ایک بیٹا نجیب حیات ہے، شرعی اعتبار سے تقسیم میراث کا حکم کیا ہے؟ 

جواب

مرحوم کے مذکورہ پس ماندگان میں اس کی بیوہ اور بیٹی وارثہ ہیں، نواسے کو بطور میراث حصہ نہیں ملے گا، البتہ اگر ورثا عاقل بالغ ہوں اور برضا و خوشی اسے میراث میں سے کچھ دینا چاہیں تو ایسا کرنا جائز اور باعث ثواب ہے۔
مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی ترکہ میں نافذ کرنے کے بعد باقی کل ترکہ کے 8 حصے کرکے ایک حصہ (12.50٪) مرحوم کی بیوہ کا اور 7 حصے (87.50٪) بیٹی کو ملیں گے۔
واضح رہے کہ یہ تقسیم اس صورت میں ہے جب کہ مرحوم کے والد، دادا، بھائی، بھتیجا، چچا یا چچا زاد بھائی وغیرہ موجود نہ ہوں، بصورتِ دیگر عصبات کی تعداد بتا کر تقسیم معلوم کرلی جائے۔  فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200520

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں