بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک سے قرض لے کر گھر خریدنا


سوال

میں انگلینڈ میں رہتا ہوں اور یہاں اپنا گھر خریدنا یا کوئی کاروبار کرنا بغیر بینک کے قرضے کے ناممکن ہے۔ اس صورت میں اسلام کا کیا حکم ہے؟ اس زمانے میں نہ صرف یہاں ، بلکہ پاکستان میں بھی اکثر لوگوں کو بغیر کسی بینک سے قرضہ لیے اپنا گھر خریدنا یا پھر کوئی کاروبار کرنا ، ناممکن ہے۔اسلام تا قیامت رہنمائی کے لیے ہے۔ پچھلے سو، دو سو سال سے دنیا بہت بدل گئی ہے اور اس زمانہ فساد میں، کوئی شہر میں تو کیا کسی بنجر زمین پر بھی جھونپڑی ڈالنے کی اجازت نہیں دے گا اور وقت کے حساب سے ، گیس بجلی، پانی اور ہر چیز کےلیے پیسے دینے پڑتے ہیں۔ میرا یہ سب لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ پرانے وقتوں میں یہ سب مسائل نہیں تھے اور اسلام نے تاقیامت ہر مسئلے کا حل بتایا ہے!

جواب

بلاشبہ اسلام کی راہ نمائی تاقیامت آنے والی انسانیت کے لیے ہے، اور شریعت نے ہر ہر مسئلہ کا حل بتلادیاہے،زمانہ کی جدت یامادی ترقی کی رفتار تیز ہونے سے شریعت کے احکامات پر کوئی اثر نہیں پڑتا،البتہ جدید پیداہونے والے مسائل قدیم فقہ اسلامی کی مدد سے حل کیے جاتے ہیں۔

شریعت نے سود کو حرام قراردیاہے چاہے وہ سود بینک کاہو یا کسی بھی ادارے یافرد کا۔زمانے کی جدت سے سود کی حرمت ،حلت میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔لہذا بینک سے سود پر قرض حاصل کرکے گھرخریدنا یاکاروبار کرناہرگزجائز نہیں۔قرآنی اصول کے مطابق سودکی نحوست کی وجہ سے کاروبار اپنے انجام کے لحاظ سے نقصان اور سودپر حاصل شدہ گھر بے برکتی ہی کی جانب جاتاہے، اس لیے بجائے بینک سے سود حاصل کیے انسان کسی سے قرض لے کر یا اپنی استطاعت کے مطابق معمولی کاروبار اورضرورت کے بقدر رہائش گاہ پر اکتفا کرے تو اللہ تعالیٰ اس میں برکت نصیب فرماتے ہیں۔حاصل یہ ہے کہ سودی قرض کے ذریعے گھر خریدنے کا جو طریقہ رائج ہے وہ سود پر مشتمل ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔

ایک ممکنہ جائز صورت یہ بھی ہے کہ گھرخریدتے وقت مکمل رقم کی ادائیگی کابندوبست نہ ہوتو گھر کے مالک سے معاملہ اس طرح طے ہوجائے کہ گھر کی پوری قیمت بازاری قیمت سے زیادہ مقرر کرلی جائے اور پھر اس کی ادائیگی قسطوں میں کی جائے تو یہ صورت بھی جائز ہے، البتہ اس صورت میں معاملہ کے وقت یہ طے ہونا ضروری ہے کہ کل قیمت کیا ہوگی؟ اور یہ بھی کہ کتنی قسطوں میں ادا کی جائے گی، اور قسط میں تاخیر کی صورت کوئی مالی جرمانہ لگانا بھی جائز نہ ہوگا۔

انگلینڈ یا کسی غیر مسلم ملک میں رہنے والے مسلمانوں کو چاہیے کہ باعمل مسلمانوں اور علماء کے ماحول میں جڑے رہیں، تاکہ مصائب اور آزمائشوں کے وقت استقامت اور درست راہ نمائی میسر رہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201187

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں