بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک سے سودی لون اور کریڈٹ کارڈ کا معاملہ ختم کرنا


سوال

ایک شخص نے 10 سال پہلے بینک سے کریڈٹ کارڈ اور بینک لون لیے تھے، اور اس نے دو سال کچھ  پیسے واپس قسط کی صورت دیے، اس کے بعد وہ مالی وجوہات کی بنا پر مزید نہ دے سکا تو بینک اس کو پریشان کرتا ہے پیسوں کے لیے اور اس کو پیشکش کرتا ہے کہ آپ نے جو اصل رقم لی تھی بینک سے تو بینک آپ کو  30% کی رعایت دیتا ہے اصل رقم میں سے اور باقی 70% آپ ادا کر دیں اصل رقم کو اور جو اوپر سود کے پیسے ہیں وہ آپ سے نہیں لیں گے ختم کردیں گے۔ یہ ایک settlement کرتا ہے، بینک کسٹمر سے. تو پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ settlement مندرجہ بالا کر سکتے ہیں یا پوری اصل رقم دیں 100% بغیر سود کے؟  جب کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کو کچھ بھی واپس نا دیں، نہ اصل رقم اور نہ ہی اوپر کا بڑھا ہوا سود؛ کیوں کہ یہ ایک سودی معاملہ تھا جس کو دینا جائز نہیں.

برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں کہ کیا میں ان کو کچھ نا دوں یا اصل رقم مع سود دوں یا صرف اصل رقم دوں یا پھر جو وہ اصل رقم کا 70% طے کر کے settlement کی صورت میں مانگ رہے ہیں وہ دوں؟

جواب

بینک سے کریڈٹ کارڈ حاصل کرنا یا سودی لون لینا ناجائز اور حرام ہے، اگر یہ معاملہ کرلیا ہو تو جس قدر جلد ہوسکے اس کو ختم کرنا اور  توبہ واستغفار کرنا لازم ہے، لہذا اگر بینک معاملہ ختم کرنے کے لیےصرف اصل رقم یا اصل رقم میں تخفیف کرکے 70 فیصد لیتا ہے اور سودی رقم دینا نہیں پڑتی تو  بینک کو اس قدر رقم دے کر معاملہ ختم کرلیا جائے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200674

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں