بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

 بینک سے لیے گئے دین پر زکاۃ


سوال

بینک  سے لیے گئے دین پر  زکاۃ آئے گی یا نہیں؟ اس پر تفصیلی فتوی مطلوب ہے!

جواب

بینک کا مختصر مدت کا قرض بھی عام قرض کی طرح ہے،مقروض کے ذمہ اس کی زکاۃ لازم نہیں۔

اگر کوئی شخص بینک سے  طویل المیعاد قرض لیتا ہے، اور  قسطیں اداکرتاہے تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ ہر سال دیگر قابلِ زکاۃ اموال کی زکاۃ  کی ادائیگی کے وقت اس سال  واجب الادا قرضہ (یعنی مکمل قرضہ میں سے جتنی مقدار ادا کرنا اسی سال اس کے ذمہ پر ہو اس) کے بقدر  منہا کر کے باقی  رقم اور اموالِ تجارت کی زکاۃ ادا کی جائے گی بشرطیکہ باقی مال  نامی (سونا چاندی، نقدی، مالِ تجارت یا خام مال) نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) تک پہنچ رہا ہو۔

حاصل یہ ہے کہ طویل المیعادبھاری قرضوں کی کل رقم کو  زکاۃ کی ادائیگی کے وقت منہا نہیں کیاجائے گا۔بلکہ ایک سال کی اقساط جواداکرنی ہیں وہ منہاکی جائیں گی۔

باقی بینک سے قرض لینا درست نہیں ہے؛ کیوں کہ بینک بلاسود قرض نہیں دیتا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 166):

"وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاً حرام.

(قوله: كل قرض جر نفعاً حرام) أي إذا كان مشروطاً".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 259):

"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول؛ لحولانه عليه (تام) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد)". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200879

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں