بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیماری کے اندیشہ کی وجہ سے حمل ساقط کرنا


سوال

میری اہلیہ امید سے ہوئی تو  2 ماہ بعد الٹرا ساؤنڈ میں پتا لگا حمل میں بیماری اور معذوری کے اثرات ہیں، کئی چیک اَپ اور لیڈی ڈاکٹر سے مشورہ ہوا تو سب نے اسقاط کا مشورہ دیا جس کی وجہ سے تیسرے مہینے میں اسقاط کر دیا۔  میرا سوال ہے اس کا بھی گناہ اور وعید ہے؟ اور اس کے کفارہ کی ضرورت ہے اور کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟

جواب

اگر حمل چار ماہ سے کم کا ہو اور دین دار اورماہر ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ بچہ کی پیدائش کی وجہ سے ماں کی جان کو یقینی یا غالب گمان کے مطابق خطرہ ہے یا ماں کی صحت حمل کاتحمل نہیں کرسکتی تو ان  جیسےاعذار کی بنا پر  حمل میں روح پڑجانے سے پہلے   پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    اسے ساقط کرنے کی گنجائش ہوگی،  چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاط حمل جائزنہیں ہے۔

یاد رہے کہ الٹرا ساؤنڈ میں بچے کی کسی بیماری کا علم یقینی نہیں، بلکہ گمان کے درجے میں ہوتا ہے، اور  اگر واقعی بیماری ہوبھی تو اللہ پاک بقیہ مدت میں بچے کی  تکمیل اور اسے صحت دینے پر قدرت رکھتے ہیں۔  اوربالفرض بچہ صحیح سالم نہ ہو  اور چار ماہ یا اس سے زیادہ حمل کی مدت ہوجائے تو پھر اس کااسقاط جائز نہیں، کیوں کہ بیمار انسان کو مارناجائز نہیں۔

اگر آپ کو ڈاکٹروں نے کسی بیماری کا الٹراساؤنڈ کے ذریعہ بتلایابھی تھا تو ایسی صورت میں  اللہ پاک سے صحت یابی کی دعاکرنی چاہیے تھی  اوراللہ پاک سے  اچھی امید رکھنی چاہیے تھی، اور  اس وجہ سے حمل ساقط نہیں کرناچاہیے تھا،الہذا اپنے اس فعل پرتوبہ و استغفار کریں ، اس کے علاوہ اس فعل کا شرعاً کوئی کفارہ نہیں۔

الدرالمختار مع الشامية، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیره، ، کراچی ۶/ ۴۲۹:

"العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه کالشعر والظفر ونحوهما لایجوز، وإن کان غیر مستبین الخلق یجوز … امرأة مرضعة ظهربها حبل وانقطع لبنها، وتخاف علی ولدها الهلاک، ولیس لأبي هذا الولد سعة حتی یستأجر الظئر یباح لها أن تعالج في استنزال الدم مادام نطفة أو مضغة أو علقة لم یخلق له عضو وخلقه لایستبین إلا بعد مائة وعشرین یوماً أربعون نطفةً وأربعون علقةً وأربعون مضغةً، کذا في خزانة المفتیین، وهکذا في فتاوی قاضي خان". (الهندیة، کتاب الکراهیة، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات وفیه العزل وإسقاط الولد، قدیم زکریا دیوبند ۵/ ۳۵۶، جدید زکریا دیوبند ۵/ ۴۱۱-۴۱۲)

"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لاتأثم إثم القتل". (الموسوعة الفقهیة الکویتیة ۳۰/ ۲۸۵) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200828

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں