بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بئرِ شفا کا پانی استعمال کرنے کاحکم


سوال

 مدینہ منورہ میں میدانِ بدر سے آگے ایک کنواں ہے،  جس کے پانی کو لوگ ’’آبِ شفا‘‘ کہتے ہیں، اور وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس کنویں میں اپنا لعابِ مبارک ڈالا تھا؛ اسی وجہ یہ آبِ شفا ہے!

جواب

اس کنوٰیں کے بارے میں جو بات مشہور ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس میں اپنا لعاب مبارک ڈالاتھا، یہ بات کسی مستند سند سے ثابت نہیں ہے۔  البتہ اگر تجربہ سے اس کنویں سے لوگوں کا شفایاب ہونا ثابت ہو تو بغر ضِ علاج اس کا پانی استعمال کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ اس سے متعلق کوئی خاص عقیدہ نہ رکھا جائے، بلکہ علاج کا ایک ذریعہ ہی سمجھا جائے۔

یہی سوال مشہور عرب عالم شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے کیا گیا تو ان کا جواب یہ تھا : 

"هذه البئر الذي سأل عنها الأخ عيظة قد سأل عنها غيره، وقد تأملنا ما نقل عنها وما رآه من يستعمل ماءها، فاتضح لنا من ذلك أنها تفيد في مواضع كثيرة، وأن الله جل وعلا قدجعل في مائها شفاء لبعض الأمراض الجلدية والحساسية، ولانرى مانعاً من استشفاء الناس بهذا الماء الذي جعل الله فيه بركة ونفع للمسلمين، وإن كانت قد تضر آخرين؛ لأنهم يستعملونها في أشياء لاتناسبهم. 
فالحاصل أنها فيها فائدة للكثير من الأمراض، ولا حرج في الاستفادة منها لمن وجد منها فائدةً وأحس بجدوى، فلا حرج في ذلك، مثل ما يستعمل بقية الأدوية، فالله جل وعلا جعل لكل داء دواء كما في الحديث الصحيح، يقول النبي ﷺ: ما أنزل الله داءً إلا أنزل له شفاءً، علمه من علمه وجهله من جهله، فهذا الماء فيه شيء من الفوائد لبعض الأمراض فلا حرج في ذلك، لكن ينبغي لمن يزورها ويتصل بها أن يتثبّت في ذلك، وأن يسأل من جرب حتى لايقع فيها بما يضرهم، يسأل المجربين فيستعمل ما اتضح أنه ينفع، ويدع الشيء الذي يضره، هذا هو الذي ينبغي. نعم". (شیخ ابن باز)
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200117

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں