بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بہنوں کو ان کا حصہ کم دے کر بھائیوں کا مشترکہ ترکہ میں کاروبار کرکے اضافہ کرنا


سوال

جب جائیداد تقسیم ہوئی تو غیر شرعی طریقے سے ہوئی اور بہنوں کو خاندان کے بڑوں نے حصہ کم دیا،  اب بھائیوں نے مزید کاروبار کر کے اپنی جائیداد بڑھا لی، اب اگر بہنوں کو حصہ دینا چاہیں تو کس طرح دیں؟ تقسیم کے وقت کی جائیداد کے حساب سے ہوگا یا پھر موجودہ جائیداد کے حساب سے؟

جواب

کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے کل ترکہ  میں اس کے  تمام شرعی ورثاء باہم اپنے اپنے حصص کے مطابق شریک ہوجاتے ہیں  اور وہ تمام ترکہ ان ورثاء میں مشترک ہوجاتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں خاندان کے بڑوں نے  چوں کہ  میراث تقسیم کرتے ہوئے بہنوں کو ان کے شرعی  حصہ سے کم دیا  تھا   تو یہ تقسیم درست نہیں ہوئی تھی ،  اب جس قدر حصہ بہنوں کو دے دیا گیا ہے وہ تو ان کا ہوگیا،  اور جتنا حصہ ان کا باقی تھا وہ بدستور شرکتِ ملک کے طور پر مشترک رہا، بعد ازاں بھائیوں نے اس میں کاروبار کرکے مزید جو اضافہ کیا ہے اس میں بہنیں اپنے باقی ماندہ حصے کے تناسب سے برابر کی شریک ہوں گی، لہذا جائیداد کے موجودہ حساب سے بہنوں کے باقی ماندہ حصے کے تناسب سے جتنا حصہ ان کا بنتا ہے وہ ان کو دینا لازم اور ضروری ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي اهـ". (فتاوی شامی،(4/325) کتاب الشرکة، فصل في الشرکة الفاسدة،ط:  سعید)

وفیه أیضاً:

[تنبيه] يقع كثيراً في الفلاحين ونحوهم أن أحدهم يموت فتقوم أولاده على تركته بلا قسمة ويعملون فيها من حرث وزراعة وبيع وشراء واستدانة ونحو ذلك، وتارةً يكون كبيرهم هو الذي يتولى مهماتهم ويعملون عنده بأمره وكل ذلك على وجه الإطلاق والتفويض، لكن بلا تصريح بلفظ المفاوضة ولا بيان جميع مقتضياتها مع كون التركة أغلبها أو كلها عروض لا تصح فيها شركة العقد، ولا شك أن هذه ليست شركة مفاوضة، خلافاّ لما أفتى به في زماننا من لا خبرة له بل هي شركة ملك، كما حررته في تنقيح الحامدية.

ثم رأيت التصريح به بعينه في فتاوى الحانوتي، فإذا كان سعيهم واحداً ولم يتميز ما حصله كل واحد منهم بعمله يكون ما جمعوه مشتركاً بينهم بالسوية وإن اختلفوا في العمل والرأي كثرة وصواباً، كما أفتى به في الخيرية". (فتاوی شامی(4/ 307 ) کتاب الشرکة، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200409

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں