بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھاگ کر نکاح کرنے کا حکم


سوال

گھر سے بھاگی ہوئی بالغ لڑکی کا نکاح اسی دن یارات پڑھانا قاضی کے لیے درست ہے، جب کہ لڑکی کے ماں باپ یا رشتے دار شامل نہیں، شریعت میں ایسا نکاح جائز ہے؟

جواب

شریعتِ مطہرہ نے لڑکی اور لڑکے دونوں، خصوصاً لڑکی کی حیا، اخلاق، معاشرت کا خیال رکھتے ہوئے ولی کے ذریعے نکاح کا نظام رکھا ہے کہ نکاح ولی کے ذریعے کیا جائے، یہی شرعاً، اخلاقاً اور معاشرۃً  پسندیدہ طریقہ ہے، اسی میں دینی، دنیوی اور معاشرتی فوائد ہیں،  لیکن اگر کوئی  نادان  عاقل بالغ لڑکی  ان فوائد اور پسندیدہ عمل کو ٹھکراکر خود ہی بھاگ کر  گواہوں کی موجودگی میں نکاح کر لے  تو  نکاح درست  ہوجائے گا، لیکن یہ نکاح پسندیدہ طریقہ پر نہیں ہوگا۔ اور غیر کفو میں نکاح ہونے کی صورت میں اولاد ہونے سے پہلے اولیاء کو فسخ کرانے کا حق ہوگا۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200362

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں