بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بھائی بہن کی ناراضی/ والدہ کے ساتھ بدسلوکی جائز نہیں


سوال

میری امی کے گھر  کے معاملات صحیح نہیں چل رہے ہیں، میرے بھائی اور بھابھی میری امی کو  غلط کہہ رہے ہیں،  جب کہ غلطی میری بھابھی کی ہے اور بھائی ماننے کو تیار نہیں ہیں،  میری بھابھی میری امی پر چیختی بھی ہیں، جس پر میرا بھائی خاموش رہتا ہے، میری بھی اپنے بھائی کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی، میرا دل چاہا کہ بھائی سے معافی مانگ لوں،  مگر خیال آیا کہ جب وہ امی کی عزت نہیں کرتا تو میری کیا کرے گا،  اس بات کو دس سال ہوگئے ہیں،  وہ امی کے ساتھ ہی رہتا ہے، کیا کیا جائے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے بھائی اور بھابھی کا رویہ  والدہ کے ساتھ قابلِ مذمت اور گناہِ  کبیرہ ہے،  جس پر  فوری طور سے ان کو  سچے دل  سے اللہ رب العزت سے توبہ و استغفار کرنا چاہیے، اور توبہ  کی قبولیت کے لیے ضروری یہ ہے کہ وہ والدہ سے معافی مانگیں  اور ان کے ساتھ حسنِ  سلوک رکھیں، والدین کی نافرمانی اور ان کے ساتھ بدسلوکی کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات ہلاکت آفرین گناہوں میں سے ایک  گناہِ  کبیرہ  شمار کیا ہے،  رہا معاملہ آپ کا اور آپ کے بھائی کا تو اس مسئلہ میں آپ کو معافی مانگ لینا چاہیے،  قطع تعلق روا رکھنا درست نہیں، حسنِ معاشرت  اختیار  کرکے  بھائی کو  پرحکمت انداز میں اس کی غلطی کا احساس دلا کر ان لوگوں کی آخرت سنوارنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

"1592- وعن أبي أيوب رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أن رَسُول اللَّهِ ﷺ قال: "لايحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال: يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا؛ وخيرهما الذي يبدأ بالسلام". مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ".

ترجمہ: مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین راتوں سے زیادہ چھوڑے (ترکِ تعلق) رکھے  کہ وہ دونوں ملیں پھر یہ اس سے اعراض کرے اور وہ اس سے اعراض کرے، ان دونوں میں سے بہترین وہ شخص ہے جو سلام میں پہل کرے۔

"1593- وعن أبي هريرة رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قال، قال رَسُول اللَّهِ ﷺ: "تعرض الأعمال في كل اثنين وخميس فيغفر اللَّه لكل امرئ لايشرك بالله شيئاً، إلا امرأً كانت بينه وبين أخيه شحناء، فيقول: اتركوا هذين حتى يصطلحا". رَوَاهُ مُسْلِمٌ".

ترجمہ: اللہ کے دربار میں ہر  پیر اور جمعرات  کو  اعمال پیش کیے جاتے ہیں،  پھر اللہ ہر اس شخص کو معاف فرمادیتا ہے، جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو، سوائے ان اشخاص کے جن کے درمیان عداوت و بغض ہو، اللہ فرماتا ہے:  ان دونوں کے معاملہ کو چھوڑدو؛  یہاں تک کہ یہ صلح کرلیں۔

"1595- وعن أبي هريرة رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قال: قال رَسُول اللَّهِ ﷺ: "لايحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث، فمن هجر فوق ثلاث فمات دخل النار". رَوَاهُ أبُو دَاوُدَ بإسناد على شرط البخاري ومسلم".

ترجمہ: مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ترکِ تعلق رکھے، پس جس نے تین روز سے زیادہ ترکِ تعلق رکھا (اسی دوران) اسے موت آگئی تو وہ آگ میں داخل ہوگا۔

"1596- وعن أبي خِرَاشٍ حدرد بن أبي حدرد الأسلمي، ويقال: السلمي الصحابي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أنه سمع النبي ﷺ يقول: "من هجر أخاه سنة فهو كسفك دمه". رَوَاهُ أبُو دَاوُدَ بإسناد صحيح".

ترجمہ:  جو شخص اپنے بھائی سے سال بھر  ناراض رہا ، تو گویا کہ اس کا خون بہا دیا۔

"1597- وعن أبي هريرة رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أن رَسُول اللَّهِ ﷺ قال: "لايحل لمؤمن أن يهجر مؤمناً فوق ثلاث، فإن مرت به ثلاث فليلقه وليسلم عليه، فإن رد عليه السلام فقد اشتركا في الأجر، وإن لم يرد عليه فقد باء بالإثم، وخرج المسلِّم من الهجرة". رَوَاهُ أبُو دَاوُدَ بإسناد حسن. قال أبو داود: إذا كانت الهجرة لله تعالى فليس من هذا في شيء".

ترجمہ: مؤمن کے لیے حلال نہیں کہ وہ دوسرے مؤمن کو  تین دن سے زیادہ چھوڑے (ترکِ تعلق) رکھے، پس اگر تین دن ہوجائیں تو اسے چاہیے کہ اس سے جا ملے اور اسے سلام کرلے، پھر اگر وہ سلام کا جواب دے تو وہ دونوں اجر و ثواب میں شریک ہوں گے، اور اگر وہ سلام کا جواب نہ دے تو وہ گناہ گار ہوگا، اور سلام کرنے والا ترکِ تعلق (کے گناہ) سے نکل جائے گا۔ امام ابو داؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر ترکِ  تعلق و ناراضی اللہ کے لیے ہو تو وہ اس وعید میں داخل نہیں۔( رياض الصالحين، باب تحريم الهجران بين المسلمين فوق ثلاثة أيام إلا لبدعة في المهجور أو تظاهر بفسق أو نحو ذلك، الصفحة 278) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200191

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں