میری بہن کو طلاق ہوچکی ہے اور وہ اب ہمارے ساتھ رہ رہی ہے، وہ والدین کے ساتھ بہت بدتمیزی کرتی ہے اور ان سے برا سلوک کرتی ہے، وہ والدہ سے اپنی وہ رقم کا تقاضا کر رہی ہے جو اس نے اپنی مرضی سے والدہ کو دی تھی، اس نے دو مرتبہ والد کو گریبان سے پکڑا ہے ، والد نے ان سے گھر چھوڑنے کا کہا ہے، کیا بچے کو گھر چھوڑنے کا کہنا جائز ہے؟ کیا میری والدہ اس کی رقم واپس کرے گی؟
آپ کے والد کے لیے جائز نہیں کہ وہ بیٹی کو گھر چھوڑنے کا کہے ، کیوں کہ طلاق یافتہ بیٹی کے لیے رہائش وغیرہ کا انتظام کرنا والد کی ذمہ داری ہے، البتہ اس کے برے رویہ کے سلسلے میں اسے پیار و محبت سے سمجھائے۔
اگر بیٹی نے ماں کو رقم دیتے وقت یہ واضح طور پر نہیں کہا تھا کہ یہ رقم قرض ہے تووہ اب رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتی، والدہ کے ذمہ لازم نہیں کہ وہ یہ رقم واپس کرے۔
فتاوی شامی میں ہے:
( وتجب ) النفقة بأنواعها على الحر ( لطفله ) يعم الأنثى والجمع ( الفقير ) الحر
و فی الرد: قال الخير الرملي: لو استغنت الأنثى بنحو خياطة وغزل يجب أن تكون نفقتها في كسبها كما هو ظاهر، ولا نقول تجب على الأب مع ذلك، إلا إذا كان لا يكفيها فتجب على الأب كفايتها بدفع القدر المعجوز عنه، ولم أره لأصحابنا. ولا ينافيه قولهم بخلاف الأنثى؛ لأن الممنوع إيجارها، ولا يلزم منه عدم إلزامها بحرفة تعلمها. اهـ أي الممنوع إيجارها للخدمة ونحوها مما فيه تسليمها للمستأجر بدليل قولهم؛ لأن المستأجر يخلو بها وذا لا يجوز في الشرع، وعليه فله دفعها لامرأة تعلمها حرفة كتطريز وخياطة مثلا.
( الدر المختار مع رد المحتار، كتاب الطلاق، باب النفقة ۳/٦۱۲ ط: سعيد) فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144007200152
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن