بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے کو گود لینا ، ولدیت کی تبدیلی اور جائیداد میں حصے کا حکم


سوال

اسلام میں کسی بچے کو پرورش میں لینا جائز ہے کہ نہیں؟ مطلب یہ ہے کہ آپ کسی بچے کو گود لیتے ہیں تو اس کے باپ کے نام کی جگہ اپنا نام نہیں دے سکتے، اس کے اصل والد کا نام استعمال کیا جائے گا، مگر ایسی صورت میں کہ بچے کی ولدیت معلوم نہ ہو جیسا کہ ایدھی کے جھولے میں بچوں کو ڈال دیتے ہیں اور اس بچے کو گود لیتے ہیں تو اس بچے یا بچی کی اسناد میں ولدیت کیا ڈالی جائے گی؟ اور اگر اس بچے کو جائیداد میں سے دوسری سگی اولاد جیسا حصہ دیا جائے خوشی سے تو  کیا یہ سگی اولاد کی حق تلفی ہے؟

جواب

کسی بچے کو اپنا منہ بولا بیٹا یا بیٹی بنانا اور اس کی پرورش کرنا جائز ہے، بشرطیکہ درج ذیل امور کا لحاظ رکھا جائے:

1۔ زیر پرورش بچے کو  اپنے حقیقی والد کی طرف نسبت کرکے بلایا جائے، لہذانکاح نامہ، دیگر  سرکاری کاغذات  اور وہ تمام جگہیں جہاں بچے کے ساتھ والد کا نام لکھا جاتا ہے وہاں حقیقی والد کا نام لکھا جائے، پرورش کرنے والے کا نام ولدیت کے خانے میں لکھنا درست نہیں۔

2۔ زیر پرورش بچے کے لیے وہ تمام احکام نہیں جو حقیقی بیٹے یا بیٹی کے ہوتے ہیں، لہذا  اس کے لیے میراث میں حصہ نہیں ہوگا، اگر محرم ہونے کی کوئی اور وجہ نہ ہو تو صرف  منہ بولا بیٹا بنانے کی وجہ سے وہ محرم نہیں بنے گا، لہذا اس سے نکاح کرنا جائز ہوگا اوربالغ ہونے کے بعد اس سے پردہ کرنا لازم ہوگا، البتہ اگر پرورش میں لینے والے شخص کی بہن (زیر پرورش لڑکی ہونے کی صورت میں) یا اس کی بیوی  کی بہن (زیر پرورش لڑکا ہونے کی صورت میں) اس بچے کو  مدتِ رضاعت میں دودھ پلادے تو وہ محرم بن جائیں گے، پھر اس بچے سے بالغ ہونے کے بعد پردہ کرنا لازم نہیں ہوگا اور اس سے نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔

زمانہ جاہلیت میں لوگ منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹوں کا درجہ دیتا تھے، قرآنِ کریم میں اس کی واضح ممانعت نازل ہوئی، چنانچہ ارشاد ربانی ہے:

{وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا} [ الأحزاب: ۴ و ۵]

ترجمہ: اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا سچ مچ کا بیٹا نہیں بنادیا، یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ تعالی حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو، یہ سب اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے، اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجائے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہیں، لیکن ہاں جو دل سے ارادہ کرکے کرو، اور اللہ تعالی غفور و رحیم ہے۔ (بیان القرآن)

حدیث شریف میں ہے:

"عن سعد وأبي بكرة كلاهما يقول: سمعته أذناي ووعاه قلبي محمدًا صلى الله عليه وسلم يقول: «من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام »". ( الصحيح لمسلم ، كتاب الإيمان، باب بيان إيمان من رغب عن أبيه الخ ۱/ ۵۸ ط:قديمي)

تفسیر مظہری میں ہے:

"{وَما جَعَلَ اللّه أَدْعِياءَكُمْ ...} أَبْناءَكُمْ فلايثبت بالتبني شىء من أحكام البنوة من الإرث وحرمة النكاح وغير ذلك". (التفسير المظهري، سورة الأحزاب۷/ ۲۸۴ ط: مكتبهرشيدية)

لہذا صورتِ  مسئولہ میں جائزنہیں کہ گود لیے بچے کے کاغذات اور سرکاری دستاویزات میں ولدیت کے خانے میں پرورش کرنے والا اپنا نام لکھے، بلکہ ان کی ولدیت میں عبد اللہ لکھا جائے۔

2۔  گود لیے بچے کو میراث میں اولاد کی طرح حصہ دینا جائز نہیں، البتہ زندگی میں اسے بطورِ گفٹ مالکانہ حقوق کے ساتھ کچھ مال (جس سے مقصود حقیقی ورثاء کو محرم کرنا یا ان کا حصہ کم کرنا نہ ہو) دینا یا ایک تہائی ترکے  میں وصیت کرنا جائز ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201220

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں