بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے کا حبان یوسف نام رکھنا


سوال

میں نے اپنے بیٹے کا نام  ’’حبان یوسف‘‘  رکھا ہے،  براِئے مہربانی مطلب واضح فرمادیں!

جواب

”حبان“ (حَبَّان) حاء کے فتحہ (زبر) اور باء کی تشدید کے ساتھ  یمن کی ایک وادی کا نام ہے،  یہ صحابہ کے ناموں میں سے ہے،  حبّان بن منقذ الخزرجي  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  انصاری صحابی ہیں جو  جنگ احد میں شریک تھے، اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں ان کا انتقال ہوا۔ یہ نام رکھنا درست اور باعث برکت ہے۔

نیز ”حبان“ (حِبَّان) حاء کے کسرہ (زیر) اور باء کی تشدید کے ساتھ   نیساپور کے علاقہ کے ایک محلہ کا نام ہے، یہ بھی صحابہ کے ناموں میں سے ہے،  حِبّان بن الحکم السلمي  رضی اللہ عنہ، بنو سلیم سے ان کا تعلق تھا،  کہا جاتا ہے کہ فتح مکہ کے دن ان کے قوم کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں تھا۔یہ نام رکھنابھی  درست اور باعثِ برکت ہے۔

اور ”یوسف“ مشہور پیغمبر کا نام ہے، لہذا بچے کا نام ’’حبّان یوسف‘‘ رکھنا درست ہے۔

معجم ديوان الأدب (3/ 98):
"(ب) حَبّانُ: من أسْماء الرِّجالِ. ويُقالُ: أخَذَه بِرَنابهِ، أي: بجميعهِ. هذا قولُ أبي عُبيْدة. [وقال غيُره رُبّانُ]".
القاموس المحيط (ص: 71):
"وحَبَّانُ، بالفتح: وادٍ باليَمنِ، وابنُ مُنْقِذٍ: صَحابِيُّ، وابنُ هِلالٍ، وابنُ واسِعِ بنِ حَبَّانَ، وسَلَمَةُ بنُ حَبَّانَ: مُحَدِّثونَ. وبالكسر: مَحَلَّةٌ بِنَيْسابورَ، وابنُ الحَكَمِ السُّلَمِيُّ، وابنُ بَجٍّ الصُّدَائِيُّ، أو بالفتح، وابنُ قَيْسٍ، أو هو بالياءِ: صَحابِيُّونَ، وابنُ موسى، وابنُ عَطِيَّةَ، وابنُ عَلِّيٍ العَنزِيُّ، وابنُ يَسارٍ: مُحَدِّثُونَ. وبالضم: ابنُ محمودٍ البَغْدادِيُّ، ومحمدُ بنُ حُبانَ بن بَكْرٍ: رَوَيا".

تاج العروس (2/ 219):
"(وحَبَّانُ بالفَتْحِ: وَادٍ باليَمَنِ) قريبٌ من وَادِي حَبْقٍ (و) حَبَّانُ (بنُ مُنْقِذِ) بنِ عمرٍ والخَزْرَجِيُّ المازنيُّ شَهد أُحُداً، وتُوُفِّي فِي زَمنِ عثمانَ رَضِيَ اللَّهُ عنهُ (صَحابِيٌّ) وابْنُه سعيدٌ لَهُ ذِكْرٌ (و) حَبَّانُ (بنُ هِلاَلٍ و) حَبَّانُ (بنُ وَاسِعِ بنِ حَبَّانَ) الحارِثِيُّ الأَنْصارِيُّ من أَهْلِ المدِينَةِ، يَرْوِي عَن أَبِيه، وَعنهُ ابنُ لَهِيعةَ (وسَلَمةُ بنُ حَبَّانَ) شيخٌ لأَبِي يَعْلَى المَوْصِلِيِّ (مُحَدِّثُونَ) .
(و) سِكَّةُ حِبَّانَ (بالكَسْرِ: مَحَلَّةٌ بنَيْسابُور) مِنْهَا محمدُ بن جعفرِ بنِ أَحمد الحِبَّانِيّ، (و) حِبَّانُ (بنُ الحكمَ السُّلَمِيّ) من بَنِي سُلَيْمٍ، قِيلَ كَانَت مَعَه رايةُ قَوْمِهِ يومَ الفَتْحِ (و) حِبَّانُ (بنُ بُجَ الصُّدَائِيُّ) لَهُ وِفَادةٌ، وشَهِد فَتْحع مِصْرَ (أَوْ هُوَ) حَبَّانُ (بالفَتْحِ) قَالَه ابْن يُونُس، والكَسْرُ أَصحّ (و) كَذَا حِبَّانُ (بنُ قَيْسٍ أَو هُوَ) أَي الأَخِيرُ (بالياءِ) المُثَنَّاةِ التَّحْتِيَّةِ، وَكَذَا حِبَّانُ أَبُو عقيلٍ الأَنْصارِيُّ، وحِبَّانُ بن وَبرَة المرّيّ (صحابِيُّونَ و) حِبَّانُ (بنُ مُوسى) المَرْوَزِيُّ شيخُ البُخَارِيِّ ومُسْلِمٍ (و) حِبَّانُ (بنُ عَطِيَّةَ) السُّلَمِيُّ، لَهُ ذِكْرٌ فِي الصَّحِيحِ، فِي حَدِيث عليّ رَضِي الله عَنهُ فِي قِصَّةِ حاطِبٍ". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200797

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں