بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بزرگوں اور اولیاءِ کرام کے مزارات بنانے کا حکم


سوال

ایک مقرر ہے اور وہ واقعہ محرم بیان کرتے ہوئے اپنی تقریر میں یہ کہتا ہے کہ اگر امام حسین کا روضہ بنانا (تعزیہ)ناجائزوحرام ہے تو اولیائے کرام کے مزارات بنانا بھی ناجائز وحرام ہے تو زید پر کون سا حکم نافذ ہوگا ؟

جواب

حدیث شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  رسول اللہ ﷺ  نے قبروں کو پختہ بنانے سے اورقبروں پر عمارت بنانے سے منع فرمایا ہے،  اس لیے کسی بھی مسلمان کی قبر پر مزار بنانا جائز نہیں ہے،  بزرگوں اور اولیاءِ  کرام کی تعظیم اور ان سے محبت کرنا لازمی ہے، لیکن اس کا طریقہ یہ نہیں کہ ان کے مزارات بنا کر وہاں بدعات کو رواج دیا جائے، بلکہ بزرگوں اور اولیاءِ  کرام سے محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کے ایصال ثواب کے لیے اعمال کیے جائیں اور انہوں نے جس طرح سنت کے مطابق زندگی گزاری اس  کی پیروی کی جائے۔

مذکورہ شخص کی بات اور استدلال درست نہیں ہے، کسی بھی قابلِ تعظیم شخصیت کی قبر پر مزار بنانے کا وہی حکم ہے جو اوپر درج کیا جاچکاہے، اس میں کسی شخصیت کے اعتبار سے فرق نہیں ہے۔ نیز جس طرح قبر کے اوپر مقبرہ بنانا جائز نہیں ہے، اسی طرح اس خاص عقیدہ کے مطابق مزار کا خاکا یا ماڈل (تعزیہ) بنانا بھی جائز نہیں ہے جو اہلِ باطل کا شعار بن چکاہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 1217):

"(وعن جابر قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يجصص القبر وأن يبنى عليه» ) قال في الأزهار: النهي عن تجصيص القبور للكراهة، وهو يتناول البناء بذلك وتجصيص وجهه، والنهي في البناء للكراهة إن كان في ملكه، وللحرمة في المقبرة المسبلة، ويجب الهدم وإن كان مسجداً، وقال التوربشتي: يحتمل وجهين: أحدهما: البناء على القبر بالحجارة، وما يجري مجراها، والآخر: أن يضرب عليها خباء ونحوه، وكلاهما منهي لعدم الفائدة فيه، قلت: فيستفاد منه أنه إذا كانت الخيمة لفائدة مثل أن يقعد القراء تحتها فلا تكون منهية. قال ابن الهمام: واختلف في إجلاس القارئين ليقرءوا عند القبر، والمختار عدم الكراهة اهـ. ثم قال التوربشتي: ولأنه من صنيع أهل الجاهلية، أي: كانوا يظللون على الميت إلى سنة. قال: وعن ابن عمر أنه رأى فسطاطا على قبر أخيه عبد الرحمن فقال: انزعه يا غلام، وإنما يظله عمله، وقال بعض الشراح من علمائنا: ولإضاعة المال، وقد أباح السلف البناء على قبر المشايخ والعلماء والمشهورين ليزورهم الناس، ويستريحوا بالجلوس فيه اهـ".

زاد المعاد في هدي خير العباد (1/ 504):

"ولم يكن من هديه صلى الله عليه وسلم تعلية القبور ولا بناؤها بآجر، ولا بحجر ولبن ولا تشييدها، ولا تطيينها، ولا بناء القباب عليها، فكل هذا بدعة مكروهة، مخالفة لهديه صلى الله عليه وسلم. وقد «بعث علي بن أبي طالب - رضي الله عنه - إلى اليمن، ألا يدع تمثالا إلا طمسه، ولا قبرا مشرفا إلا سواه» ، فسنته صلى الله عليه وسلم تسوية هذه القبور المشرفة كلها، ( «ونهى أن يجصص القبر وأن يبنى عليه وأن يكتب عليه» ) .

وكانت قبور أصحابه لا مشرفة، ولا لاطئة، وهكذا كان قبره الكريم، وقبر صاحبيه، فقبره صلى الله عليه وسلم مسنم مبطوح ببطحاء العرصة الحمراء لا مبني ولا مطين، وهكذا كان قبر صاحبيه".


فتوی نمبر : 144012201168

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں