بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بروکری کی آمدن


سوال

کیا اس بات کی اجازت ہے کہ کوئی کیپیٹل انویسمنٹ کے بروکر اور وکیل کے طور پر کام کرے، میری کیپیٹل انویسمنٹ سے جو مراد ہے وہ مندرجہ ذیل ہے:

کیپیٹل انویسمنٹ قرض پر کاروبار کا ایک نظریہ ہے، اس میں گاہک قرض لی ہوئی رقم کے ذریعہ ایک پراپرٹی کا مالک بن سکتا ہے، گاہک کو یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ قرض کو استعمال کر کے اپنی پراپرٹی بنا سکتا ہے،گاہک سرمایہ حاصل کرتا ہے  یعنی وہ ایک پراپرٹی حاصل کرتا ہے، مثال کے طور پر  3 کمرے کا فلیٹ جو پہلے سے ہی کرایہ پر ہے، اس فلیٹ کی قیمت مثال کے طور پر 200000 یورو  ہے، اب گاہک کو سرمایہ کار ڈھونڈنا ہوگا جو اس کو سرمایہ دے، اکثر اوقات سرمایہ دینے والا روایتی بینک ہی ہوتا ہے، اب یہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس بیس سال ہوتے ہیں قرض کی ادائیگی کے لیے، مہینہ وار  قرض  کی ادائیگی مثال کے طور پر  700  یورو ہوگی اور فلیٹ سے حاصل شدہ کرایہ 750  یورو ہوگا، یعنی فلیٹ کا کرایہ مہینہ وار قسط کی ادائیگی کے لیے کافی ہوگا اور 20  سال بعد یہ آدمی اس فلیٹ کا مالک بن جائے گا اور اب وہ کرایہ اپنی ذاتی ضرورت میں استعمال کرسکتا ہے اور چاہے تو وہ فلیٹ بیچ سکتا ہے۔

اگر میں بروکر ہونے کی حیثیت سے لوگوں کی ذہن سازی کروں اور ان کو فلیٹ خریدنے پر آمادہ کروں تو میں  کماؤں گا، میرا فلیٹ کے مالکان سے رابطہ ہوتا ہے اور وہ مجھے حاصل شدہ قیمت میں ایک فیصد دیتے ہیں، مثال کے طور پر 200000 یورو  میں ۵ فیصد، نہ میں بینک  کی کوئی معاونت کرتا ہوں اور نہ میرا بینک کے نفع میں کوئی حصہ ہے، فلیٹ کے مالکان اور بینک کے روابط ہوتے ہیں اور فلیٹ کے مالکان گاہک کو بینک کی تجویز دے سکتے ہیں اور کم سود کی شرح پر قرض حاصل کرنے میں معاونت بھی کرسکتے ہیں، البتہ انہیں ایسا کرنا لازم نہیں ہوتا، بلکہ پیسوں کا انتظام گاہک کے ذمہ ہی ہوتا ہے، اکثر صورتوں میں گاہک روایتی بینک ہی استعمال کرتے ہیں پیسوں کی ادائیگی کے لیے۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں گاہک اور فلیٹ کے مالکان کے درمیان بروکر کے طور پر کام کر سکتا ہوں اور کیا طرح کے طریقہ کار کی راہ نمائی کرسکتا ہوں؟

جواب

بروکر  جو کمیشن لیتا ہے وہ اس کی محنت اور کوشش کی اجرت ہوتی  ہے اور بروکر  کے لیے اس کا لینا اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ جائز کام کی اجرت لے اور وہ بروکری عرف کے مطابق ہو اس سے زائد نہ ہو اور رقم متعین ہو یا ایک مخصوص شرح متعین ہو، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے بروکری لینا جائز ہوگا، اور اگر یہ بروکری متعین ہو  اور عرف کے مطابق ہو، مثلاً  اگر200000 یورو  کا  5  فیصد عرف کے مطابق ہے تو اس کی لینے کی اجازت ہوگی۔

سائل کے لیے اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ گاہک کو بینک سے سودی قرضہ لینے کی طرف راہ نمائی کرے، لہٰذا سائل اگر راہ نمائی نہیں کرتا اور گاہک خود قرض لے کر پیسوں کی ادائیگی کرتا ہے تو سائل کی کمائی پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا،  نیز یہ بھی ضروری ہے کہ گاہک اور فلیٹ مالکان کے درمیان جو معاہدہ طے پارہاہے اگر اس میں غیر شرعی صورت ہو تو بروکر اس معاملے کی راہ نمائی نہ کرے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 47) ط: سعید:

"قال في البزازية: إجارة السمسار والمنادي والحمامي والصكاك وما لايقدر فيه الوقت ولا العمل تجوز لما كان للناس به حاجة ويطيب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل وذكر أصلاً يستخرج منه كثير من المسائل فراجعه في نوع المتفرقات والأجرة على المعاصي".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63):

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدًا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجاً ينسج له ثيابًا في كل سنة". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200600

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں