بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بذریعہ عدالت طلاق کا حصول


سوال

کوئی عورت  نکاح کے بعد اور  رخصتی سے پہلے شوہر سے طلاق مانگےاور شوہر طلا ق نہ دے اور عدالت طلاق دے تو یہ طلاق ہوگی یا ںہیں؟

جواب

بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنا شرعاً انتہائی ناپسندیدہ امر ہے ، اور طلاق اللہ تعالیٰ کے ہاں مبغوض ترین چیزوں میں سے ہے۔ نیزخلع اور طلاق  دونوں ہی شوہر کا اختیار ہے اور وہی دے سکتا ہے، عدالت  شوہر کی رضامندی  کے بغیر خلع یا طلاق دینے  کا اختیار نہیں رکھتی، چاہے رخصتی سے قبل ہو یا رخصتی کے بعد۔

البتہ اگر شوہر کی  جانب سے بیوی پر ظلم ہو ، جیسے: نفقہ وغیرہ نہ دینا اور بیوی اس کو گواہوں کے ذریعے ثابت کردے   تو مسلمان قاضی عدالت میں مطلوبہ  شرائط کے  پائے جانے کی صورت میں اس کے خلاف  جدائی  کا فیصلہ کرسکتاہے۔

اسی اگر شوہر بیوی کو نہیں رکھنا چاہتا اور وہ عدالت کو طلاق دینے کا وکیل بنا دیتاہے، تو وکالت کے احکام کی رعایت ہونے کی صورت میں عدالت طلاق واقع کرسکتی ہے۔یاد رہے کہ  عدالت کی جانب سے جاری کردی  کسی مخصوص ڈگری پر فتوی اسی وقت دیا جاسکتا ہے جب کہ عدالت کی کارروائی اور اس کی ڈگری مفتی  کے سامنے ہو۔ 

باقی اگر عورت کی طرف سے طلاق کے مطالبے کی کوئی معقول و معتبر وجہ ہو اور ابھی تک رخصتی بھی نہیں ہوئی ہو اور صلح کی کوشش بھی کامیاب نہ ہو تو بہتر ہے کہ شوہر خود طلاق یا خلع دے دے، ایسی صورت میں شوہر کی طرف سے بیوی کے معاملے کو لٹکاکر رکھنا بھی شرعاً ناپسندیدہ ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں