بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تحلیل کی شرط پر نکاح کرنا


سوال

زید نے ہندہ کو تین طلاقیں دیں جس سے نکاح ٹوٹ گیا،  اب زید اور ہندہ حلالہ کے ذریعہ پھر سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو کیا زید اپنے بھائی عمر سے ہندہ کا حلالہ کروا سکتا ہے؟  اگر حلالہ ہو سکتا ہے تو ہندہ اور عمر کا جو نکاح ہو گا بغیر کسی شرط کے ہو گا، لیکن عمر کو اس بات کی خبر ہے کہ یہ نکاح حلالہ کی نیت سے ہو رہا ہے تو کوئی حرج تو نہیں؟ 

ہندہ پہلے زید کے ساتھ جس گھر میں رہتی تھی تو کیا اب عمر کے ساتھ بھی اسی گھر میں رہ سکتی ہے?  زید کے طلاق دینے کے بعد ہندہ اسی گھر میں عدت کر رہی ہے تو کیا عدت کے بعد اسی گھر میں ہندہ کا نکاح عمر سے ہو سکتا ہے؟  اور اگر عمر نے ہندہ کو طلاق دی تو کیا طلاق کے بعد اسی گھر میں عدت کر سکتی ہے؟  عمر اور ہندہ کے نکاح کا سارا خرچ زید کرنا چاہتا ہے جیسے نکاح کی مہر کی رقم اور اگر عمر نے ہندہ کو طلاق دی تو اس کی عدت کا خرچ زید کر سکتا ہے کیا?

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں تین طلاق ایک ساتھ دینا انتہائی ناپسندیدہ اور گناہ ہے، تاہم ایک ساتھ تین طلاق دینے سے تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، شرعی حکم یہ ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان نباہ کی صورت نہ ہو تو  ایسے طہر (پاکی کے ایام) میں ایک طلاق دے کر چھوڑ دے جس  میں صحبت نہ کی ہو، اور عدت گزرنے تک رجوع نہ کرے، عدت گزرنے کے ساتھ ہی عورت نکاح سے نکل کر اپنے فیصلے میں آزاد ہوجائے گی، اس صورت میں اگر زوجین میں سے کسی کو بھی ندامت و پشیمانی ہوگی انہیں رجوع کا حق رہے گا، چاہے عدت کے دوران انہیں احساس ہوجائے، اس صورت میں صرف زبانی یا عملی رجوع ہی کافی ہوگا، اور عدت گزرنے کے بعد شرعی گواہوں کی موجودگی میں تجدیدِ نکاح کافی ہوگا۔

دوسری صورت یہ ہے کہ ایک طہر میں ایک طلاق دے، دوسرے طہر میں دوسری طلاق دے، تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے، اور اس دوران بیوی سے تعلق قائم نہ کرے، تیسرے طہر کے بعد ایام گزرتے ہی وہ عورت بائنہ ہوجائے گی، اس طریقے میں بھی عدت مکمل ہونے تک رجوع کا حق رہتاہے،  لیکن پھر بھی جب شوہر  ہر طہر میں ایک طلاق دے رہاہوتاہے تو یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ یہ جذباتی فیصلہ نہیں ہے، بلکہ شعوری طور پر سوچ  وبچار کے بعد مرد بیوی کو نکاح سے نکال رہاہے۔

اگر کوئی شخص ان شرعی احکام و رعایات کا فائدہ نہ اٹھائے اور جذباتی فیصلہ کرتے ہوئے تین طلاقیں ایک ساتھ دے دے تو اسے حق نہیں کہ وہ عدت کے دوران رجوع کرے یا تجدیدِ نکاح کے ذریعے رشتہ دوبارہ استوار کرے، ایسی صورت میں عورت عدت گزارنے کے بعد اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتی ہے، ایسے زوجین کے لیے فیصلہ تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ اب باہم رجوع ہی نہ کریں؛ کیوں کہ وہ اتنے اہم رشتے کے معاملے میں جب حساس نہیں ہیں، اور ساری زندگی کا تعلق چند سیکنڈ کے جذبات کی نذر کردیتے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ وہ اب دوبارہ ساتھ نہ رہیں،  شوہر کی سزا بھی یہی ہے کہ جس نے اپنے اور عورت کے مستقبل کا سوچے سمجھے بغیر اتنا بڑا فیصلہ کیا ہے اسے کسی صورت رجوع کا حق نہ دیا جائے، اور غیرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ رجوع نہ کرے۔

لہٰذا اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے اور پھر اس سے دوبارہ نکاح کرنے کے لیے اس کا نکاح  کسی دوسرے شخص سے خود کرائے کہ وہ نکاح کے بعد اسے طلاق دے گا، ایسا کرنا موجبِ لعنت اور ناجائز فعل ہے،  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا کرنے والے اور جو شخص ایسا کروا رہا ہے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔

البتہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے اور وہ عدت گزرنے کے بعد (پہلے شوہر کی شرکت کے بغیر) کسی دوسری جگہ طلاق دینے کی شرط کے بغیر نکاح کرے، اس کے بعد اس کا شوہر زن و شو کا تعلق قائم کرنے کے بعد اسے طلاق دےدے یا اس کا انتقال ہوجائے تو دوسرے شوہر کی عدت گزرنے کے بعد  یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگی۔

صورتِ مسئولہ میں زید کا طرزِ عمل شریعت کے یکسر خلاف ہے، اسے ہندہ کے نکاح اور دیگر معاملات میں بالکل حصہ دار نہیں بننا چاہیے، ہندہ طلاق کی عدت مکمل کرنے کے بعد اپنا نکاح کرنے اور زندگی کے دیگر فیصلے کرنے میں آزاد ہے، وہ جہاں چاہے نکاح کرے، عدت کے بعد جہاں وہ نکاح کرلے اگر قضاءِ الٰہی سے اس کا انتقال ہوجائے یا دوسرا شوہر زن و شو کا تعلق قائم کرنے کے بعد از خود طلاق دے دے اور دوسرے شوہر کی عدت بھی مکمل ہوجائے تو ہندہ کو اختیار ہوگا کہ وہ دوبارہ پہلے شوہر سے نکاح کرے۔ موجودہ حالات میں زید کا خود نکاح کا انتظام کرنا اور اس سلسلے میں آنے والے اخراجات مہر وغیرہ کی ذمہ داری لینا غیرتِ انسانی اور مزاجِ شرعی کے خلاف اور ناجائز ہے۔

النهر الفائق شرح كنز الدقائق (2/ 423):

"(وكره) النكاح كراهة تحريم (بشرط التحليل) بأن يقول: تزوجتك على أن أحللك أو تقول هي، وعلى هذا حمل ما صححه الترمذي: (لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحلل والمحلل له) قيد باشتراط؛ لأنهما لو نوياه فقط لم يكره، بل يكون الرجل مأجورًا لقصده الإصلاح، وإن وصلية حلت (للأول)".

باقی اگر ہندہ از خود عمر سے نکاح کرتی ہے، تو وہ اسی گھر میں رہ سکتی ہے، اور عمر  ادائے حقوق کے بعد از خود طلاق دے دیتا ہے تو بھی اسی گھر میں عدت کر سکتی ہے۔ تاہم زید اور ہندہ چوں کہ ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی ہیں، لہٰذا اس دوران پردے کا اہتمام انتہائی ضروری ہوگا۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200416

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں