بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق معلق کی ایک صورت


سوال

ایک دن میری بیوی سے لڑائی ہوئی اور وہ اپنے والدین کے گھر جانے لگی اور میں نے اسے روک کر کہا اگر آپ باغ (باغ ہمارے گاؤں کا نام ہے اور اس کے والدین بھی باغ گاؤں میں ہی رہتے ہیں)سے سے باہر گئی تو  آپ میری طرف سے فارغ ہیں، دوبارہ میرے گھر واپس نہیں آنا،  اس نے میری نہیں سنی اور اپنے والدین کے گھر چلی گئی،  کیا اس سے طلاق ہو جاتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کایہ کہناکہ"اگرآپ ’’باغ ‘‘سےباہر گئی توآپ میری طرف سےفارغ ہیں، دوبارہ میرےگھرواپس نہیں آنا " اگرسائل نے مذکورہ جملہ مذکراۂ طلاق میں کہاہےیا، اس جملہ سے طلاق کی نیت کی اور سائل کی بیوی باغ سے باہر جائے گی تو شرط کی خلاف ورزی کرنےکی وجہ سےاس پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوجائے گی اورنکاح ختم ہوجائے گااوررجوع جائزنہیں ہوگا۔ تاہم اگر فریقین باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں تجدیدِ نکاح ضروری ہوگا۔اس صورت میں آئندہ کےلیےسائل کے پاس دوطلاق کاحق باقی ہوگا۔

اوراگرسائل نے مذکورہ جملہ مذکراۂ طلاق میں نہیں کہاہے اور طلاق کی نیت بھی نہیں تھی تو شرط کی خلاف ورزی کرنےکے باوجودطلاق واقع نہیں ہوگی اور نکاح بدستوربرقرارہےگا۔

اب اگرسائل کی بیوی باغ سے باہرنہیں گئی ہے، بلکہ باغ میں ہی والدین کےگھرگئی ہےتو  بہردوصورت اس پرکوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و إذا أضافه إلی الشرط وقع عقیب الشرط اتفاقًا". (الفتاوي الهندية،كتاب الطلاق ۱/ ۴۲٠ ط:رشيدية)

 فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم الكنايات ثلاثة أقسام (ما يصلح جوابًا لا غير) أمرك بيدك، اختاري، اعتدي (وما يصلح جوابًا وردًّا لا غير) اخرجي اذهبي اعزبي قومي تقنعي استتري تخمري (وما يصلح جوابًا وشتمًا) خلية برية بتة بتلة بائن حرام، والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها (وحالة) الغضب، ففي حالة الرضا لايقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية، والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع الطلاق في سائر الأقسام قضاءً إلا فيما يصلح جوابًا وردًّا؛ فإنه لايجعل طلاقًا، كذا في الكافي، وفي حالة الغضب يصدق في جميع ذلك لاحتمال الرد والسب إلا فيما يصلح للطلاق ولايصلح للرد والشتم كقوله: اعتدي واختاري وأمرك بيدك فإنه لايصدق فيها، كذا في الهداية". (الفتاوى الهندية، كتاب الطلاق، الباب الثاني،الفصل الخامس ۱/۳۷۴ و ۳۷۵ ط: رشيديه)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"إذاكان الطلاق بائنًا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدةوبعد انقضائها". (الفتاوي الهندية، كتاب الطلاق، ۱/ ۴۷۳ ط:رشيدية) فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144105200274

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں