بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اے ابن آدم ایک تیری چاہت ہے ۔۔۔حدیث کی تحقیق


سوال

اے ابن آدم ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے یہ حدیث قدسی مشہور ہے ، کیا یہ درست ہے؟

جواب

حدیثِ قدسی  اللہ تعالیٰ کے اس کلام کو کہتے ہیں جو قرآن کا حصہ نہ ہو اور رسول اللہنے اس کو نقل فرمایا ہو، چنانچہ کسی بات کو حدیثِ قدسی کہنا اس وقت درست ہوگا جب اس بات کا اللہ تعالیٰ کے کلام  کے طور پر رسول اللہسے منقول ہونا ثابت ہو۔

جہاں تک سوال میں مذکورہ  روایت کی بات ہے تو کتب حدیث میں مذکورہ روایت صرف ایک کتاب ’’نوادر الاصول‘‘ للحکیم الترمذی (المتوفی بین۲۸۵۔۔۲۹۰ھ         او     نحو    ۳۲۰ھ) میں ملتی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:

"حدثنا عمر بن أبي عمر قال: حدثنا عبد الوهاببن نافع عن مبارک بن فضالة عن الحسن قال: قال الله تعالى: (لداود عليه السلام) یا داؤد! تريد وأريد ويكون ما أريد، فإذا أردت ماأريد كفيتك ما تريد، ويكون ما أريد، وإذا أردت غير ما أريد عنيتك فيما تريد ويكون ما أريد".

(نوادر الأصول في أحاديث الرسول، الأصل الخامس و العشرون و المائة في أن سعادة ابن آدم الاستخارة و الرضیٰ بالقضاء  (2/ 107)ط:دار الجیل، بیروت)

ترجمہ:حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے  حضرت داؤد علیہ السلام سے فرمایا : اے داؤد ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے، ہوگا تو وہی جو میری چاہت ہے، پس اگر تم اپنی چاہت کو میری چاہت کے تابع کردو تو میں تمہاری چاہت  کے لیے بھی کافی ہوجاؤں گا (یعنی تمہاری چاہت بھی پوری کردوں گا)،  اور بہرحال ہوگا تو وہی جو میں چاہوں گا، اور اگر تمہاری چاہت میری مرضی کے خلاف ہو تو میں تمہیں تمہاری چاہت میں تھکا دوں گا (یعنی پوری کوشش کے باوجود تمہاری چاہت پوری نہیں ہوگی) اور ہوگا تو پھر بھی وہی جو میری چاہت ہے۔

لیکن مذکورہ روایت کو حدیثِ قدسی تسلیم کرنے سے دو باتیں مانع ہیں، ایک یہ کہ  اس روایت میں مذکورہ فقرہ رسول اللہسے نقل نہیں کیا گیا ہے، بلکہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے منقول ہے؛ اس لیے اس فقرہ کو حدیثِ قدسی نہیں مانا جاسکتا، مزید یہ کہ اس روایت کی سند بھی انتہائی کمزور ہے؛  کیوں کہ حضرت حسن  بصری رحمہ اللہ تک کی سند میں مذکور تینوں راوی متکلم فیہ ہیں۔ (عمر ابن ابی عمر اور عبد الوھاب بن نافع انتہائی درجہ کے ضعیف راوی ہیں، جب کہ مبارک ابن فضالہ مدلس ہیں اور یہ روایت ان سے  ’’عن‘‘ کے ساتھ منقول ہے)، لہٰذا اس روایت کا خود حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے ثابت ہونا بھی محل نظر ہے۔

          البتہ اس روایت کو معنیً درست قرار دیا جاسکتا ہے،کیوں  کہ  یہ روایت سند کے بغیر بعض شروحِ حدیث اور زہد و تصوف کی کتب میں مذکور ہے۔ جیسے:    

   ۱)قوت القلوب(۲؍۱۴ )لابی طالب مکی (المتوفیٰ:۳۸۶ھ)

          ۲)احیاء علوم الدین(۴؍۳۴۶ )للامام الغزالی  (المتوفیٰ:۵۰۵ھ)

          ۳)مرقاۃ المفاتیح شرح المشکوٰۃ (۴؍۱۵۶۶ )ملا علی القاری ( المتوفیٰ:۱۰۱۴ھ)

لیکن ان کتب میں مذکور ہونے کے باوجود روایت کے الفاظ کا ضعف ختم نہیں ہوگا، کیوں کہ ایک تو ان کتب میں یہ روایت سند کے بغیر مذکور ہے، دوسری بات یہ بھی ہے کہ یہ مصنفین حضرات  حکیم ترمذی رحمہ اللہ سے متأخر ہیں، اس لیے  ظاہر یہی ہے کہ انہوں نے حکیم ترمذی ہی کی روایت کو سند اور حوالہ کے بغیر نقل کیا ہے۔

          خلاصہ یہ ہوا کہ  چوں کہ اس روایت میں حدیثِ قدسی ہونے کی شرائط بھی مکمل نہیں ہیں، اور سند بھی انتہائی درجے کی ضعیف ہے،اس لیے اس روایت کو حدیثِ قدسی کہنا اور حدیثِ قدسی کے عنوان سے آگے نقل کرنا درست نہیں ہے، البتہ مذکورہ مشائخؒ  کا اس عبارت کو ذکر کرنا، اس کے معنی اور مضمون کے درست ہونے کی علامت ہے، چنانچہ اس عبارت یا جملوں کو انہی حضرات کی طرف منسوب کرکے ان کے حوالہ سے ذکر کیا جائے تو اس میں حرج نہیں ، لیکن حدیثِ قدسی کہہ کر نقل کرنا جائز نہیں۔

منهج النقد في علوم الحديث (ص: 323):

"الحديث القدسي: هو ما أضيف إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأسنده إلى ربه عز وجل. مثل: "قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وأسنده إلى ربه عز وجل، مثل: "قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما يروى عن ربه"، أو"قال الله تعالى فيما رواه عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم". ويقال له أيضاً: الحديث الإلهي، أو الرباني.

ومناسبة تسميته "قدسياً" هي التكريم لهذه الأحاديث من حيث إضافتها إلى الله تعالى، كما أنها واردة في تقديس الذات الإلهية، قلما تتعرض لأحكام الحلال والحرام، إنما هي من علوم الروح في الحق سبحانه وتعالى".

 حاشیة نوادر الأصول ( ص:۳۴۶ ) میں ہے:

’’هذا إسناد مسلسل بالعلل:

أولاً: شیخ المصنف واه، کما تقدم التنبیه علیه.

ثانیاً: عبد الوهاب ضعیف جداً، کما في ’’اللسان‘‘ (۴؍۹۲ )، و مبارک صدوق مدلس، و قد عنعن".  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200489

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں