بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تین سے زائد جوڑے سلوانے کا حکم


سوال

 کیا کوئی شخص بوجہ ضرورت کے پہننے کے لیے تین سے زائد جوڑے کپڑوں کے رکھ سکتا ہے؟ ایک سے زائد جوڑے ایک ہی بار میں سلوانے کا کیا حکم ہے?

جواب

تین سے زائد جوڑے سلوانا یا ایک وقت میں ایک سے زائد جوڑے سلوانا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے جب کہ کسی صالح غرض کے تحت ہو۔  حدیثِ مبارک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو نعمت سے نوازیں تو وہ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ بندے پر اس کی نعمت کا اثر بھی ہو۔ یعنی جسے اللہ تعالیٰ نے وسعت دی ہو اُسے چاہیے کہ شکر کے جذبات اور اعتدال کے ساتھ اللہ کی دی ہوئی نعمت کو استعمال کرے، چناں چہ اسے ریا ونمود ، خود پسندی اور دوسروں کی تحقیر کے جذبات سے بچتے ہوئے خوش لباس اور خوش طعام بھی ہونا چاہیے۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نماز اور دیگر عبادات میں مستقل الگ اور قیمتی لباس کا استعمال اور بعض تابعین ، تبع تابعین رحمہم اللہ سے روزانہ ہر درسِ حدیث سے پہلے نیا اور قیمتی لباس استعمال کرنا اور پھر اسے صدقہ کرنا منقول ہے۔ 

لباس میں اسراف کی وضاحت صحابہ کرام اور تابعین کے اقوال کی روشنی میں یہ ہے کہ لباس کی کثرت یا اس کے بیش قیمت ہونے میں اپنی بڑائی یا دوسرے کی تحقیر   یا دکھلاوے کی نیت نہ ہو  یا حد سے زیادہ مہنگی اشیاء کسی صالح غرض کے بغیر استعمال کی جائیں۔ چناں چہ بعض مواقع پر نبی کریم ﷺ سے بہت قیمتی چادر کا استعمال بھی ثابت ہے، اور بعض صحابہ اور تابعین سے بیش قیمت لباس کا عمومی استعمال ثابت ہے، لیکن یہ سب تحدیث بالنعمۃ کے ساتھ ساتھ دین، قرآنِ کریم اور حدیثِ نبوی کے دروس کی تعظیم جیسی صالح اغراض کے ساتھ تھا۔

واضح رہے کہ بعض اہلِ علم نے صدقہ فطر اور قربانی کے نصاب میں ’’بنیادی ضرورت کے سامان‘‘  کی وضاحت میں یہ بات لکھی ہے کہ سردی اور گرمی کے موسم کے اعتبار سے تین تین کپڑے بنیادی ضرورت میں داخل ہیں، اس سے زائد جوڑے انسان کی بنیادی ضرورت سے خارج ہیں، لہٰذا صدقہ فطر اور قربانی کے نصاب میں تین سے زائد جوڑوں کی قیمت بھی شامل کی جائے گی۔  جمہور اہلِ فتویٰ کے ہاں یہ درست نہیں ہے۔ جمہور کے ہاں اسراف سے بچتے ہوئے انسان جتنے جوڑے استعمال کے لیے سلوائے اور انہیں استعمال کرے، شرعاً اس کی اجازت بھی ہے اور یہ جوڑے استعمال میں ہونے کی وجہ سے بنیادی ضرورت کے سامان میں بھی داخل ہوں گے، اور صدقہ فطر و قربانی کے نصاب میں ان کی مالیت کو شامل نہیں کیا جائے گا، بشرطیکہ سال میں کم از کم ایک مرتبہ استعمال ہوتے ہوں۔

حدیث شریف میں آتا ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله عز وجل إذا أنعم على عبد نعمة يحب أن يرى أثر النعمة عليه". (شعب الإيمان 8/ 264) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200830

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں