اگر ایک بندا کسی شہر میں ایک سال سے زیادہ وقت گزار چکا، پھر کچھ وقت بعد پھر اسی شہر میں جانے کا اتفاق ہو 10 دن یا اس سے کم تو اس آدمی پر پوری نماز ادا کرنا فرض ہوگا یا صرف سفر کی نماز ادا کرنا لازم ہوگا؟
کسی شہر میں اقامت کی نیت سے ایک سال تک رہنے سے اگرچہ وہ شہر وطنِ اقامت بن جاتا ہے، لیکن اگر آدمی ایک سال تک رہنے کے بعد اس شہر کو چھوڑ کر یعنی وہاں سے اپنی اقامت کو ختم کرنے کی نیت سے بیوی بچے اور سامان وغیرہ لے کر دوسری جگہ چلا جائے، تو وہ وطنِ اقامت باطل ہوجائے گا، اور دوبارہ کبھی اس شہر میں آنے کی صورت میں اگر پندرہ دن سے کم رہنے کی نیت ہو تو یہ آدمی قصر کرے، پوری نماز نہیں پڑھے گا، لیکن اگر ایک سال تک رہنے کے بعد اس شہر سے جاتے ہوئے اس وطنِ اقامت کی وطنیت کو ختم کر کے نہیں گیا ہو، بلکہ کسی کام سے دوسری جگہ گیا ہو اور واپس آنے کی نیت بھی ہو اور بیوی بچے یا سامان اسی شہر میں اپنی رہائش گاہ پر چھوڑ کر گیا ہو تو یہ والا وطنِ اقامت باطل نہیں ہوگا اور واپس اس شہر میں آنے کی صورت میں یہاں پوری نماز پڑھنی ہوگی، چاہے پندرہ دن سے کم رہنے کی نیت ہو یا زیادہ کی۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2/ 147):
’’كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر ... وأما وطن الإقامة فهو الوطن الذي يقصد المسافر الإقامة فيه، وهو صالح لها نصف شهر‘‘.
الفتاوى الهندية (1/ 139):
’’ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوماً أو أكثر، كذا في الهداية. ... وإن نوى الإقامة أقل من خمسة عشر يوماً قصر، هكذا في الهداية‘‘. فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144003200351
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن