بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک امام کا ایک ہی جمعہ میں دو جگہ خطبہ دینا


سوال

ایک شخص جمعہ کی نماز پڑھ چکا ہے تو  کیا وہی شخص دوربارہ کسی مسجد میں صرف خطبہ دے سکتا ہے،جب کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا خطبہ دینے والا نہیں ہے؟

جواب

کسی شخص کے لیے ایک مرتبہ جمعہ کی نماز ادا کرلینے کے بعد دوسری جگہ میں خطبہ دینا جائز نہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (2 / 162):

"(لاينبغي أن يصلي غير الخطيب)؛ لأنهما كشيء واحد (فإن فعل بأن خطب صبي بإذن السلطان وصلى بالغ جاز) هو المختار".

و في الرد:

"(قوله: لأنهما) أي الخطبة والصلاة كشيء واحد؛ لكونهما شرطًا ومشروطًا، ولا تحقق للمشروط بدون شرطه، فالمناسب أن يكون فاعلهما واحدًا ط (قوله: وصلى بالغ) أي بإذن السلطان أيضًا، والظاهر أن إذن الصبي له كاف؛ لأنه مأذون بإقامة الجمعة لما في الفتح وغيره من أن الإذن بالخطبة إذن بالصلاة وعلى القلب اهـ فيكون مفوضًا إليه إقامتها ولأن تقريره فيها إذن له بإنابة غيره دلالة لعلم السلطان بأنه لاتصح إمامته نعم على القول باشتراط الأهلية وقت الاستنابة لايصح إذنه بها ولا بد له من إذن جديد بعد بلوغه، والله أعلم. [تنبيه]

ذكر الشرنبلالي وغيره، أن هذا الفرع صريح في الرد على صاحب الدرر في عدم تجويزه استنابة الخطيب غيره للصلاة قبل سبق الحدث، وفيه نظر إذ ليس صريحًا في أن البالغ صلى بدون إذن السلطان بل الظاهر أنه بإذنه صريحًا أو دلالةً كما قررناه، فتدبر، ثم رأيت ح ذكر نحوه (قوله: هو المختار) وفي الحجة أنه لايجوز، في فتاوى العصر: فإن الخطيب يشترط فيه أن يصلح للإمامة، وفي الظهيرية: لو خطب صبي اختلف المشايخ فيه والخلاف في صبي يعقل اهـ والأكثر على الجواز، إسماعيل".

فتاوی محمویہ  (8 / 269)میں ہے:

’’سوال: جس امام نے خطبہ اور جمعہ کی نماز پڑھا دی ہو، وہ کچھ تاخیر سے کسی دوسری مسجد میں خطبہ دے سکتا ہے یا نہیں؟ نماز کوئی اور پڑھا دے۔

جواب: وہ خطبہ نہ دے‘‘۔ فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200692

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں