بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں ہزار روپے رکھے بغیر سہولیات ملنا یا ہزار روپے رکھنے کی صورت میں کچھ پیسوں کے عوض سہولیات ملنا


سوال

احقر نے ٹیلی نار کمپنی کے موبائل بینکنگ سسٹم میں ایزی پیسہ اکاؤنٹ کھلوایا ہے، اس لیے کہ ایزی پیسہ اکاؤنٹ کے ذریعے انٹرنیٹ پیکیج لگانا سستا پڑتا ہے،  اب ہر چند روز بعد کمپنی کا نمائندہ فون کرتا ہے ، کبھی میسج بھیجتاہے کہ آپ ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں ایک ہزار روپے جمع کرائیں اور مذکورہ رقم سے مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے موبائل کو ری چارج کریں تو آپ کو روز پچاس منٹ ٹیلی نار پچاس ایس ایم ایس اور پچاس ایم بیز انٹرنیٹ مفت ملے گا، لیکن شرط یہ کہ اس ہزار روپے کو اکاؤنٹ میں برقرار رکھنا ہے،  چاہے ہزار  روپے زیادہ بھی جمع کرائیں، لیکن پھر بھی مذکورہ بالا مراعات ملیں گی۔

 بندہ احقر نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں اکاؤنٹ میں مذکورہ رقم نہیں رکھ سکتا، کیوں کہ اس میں سود کا معاملہ آتا ہے، البتہ اپنی سہولت کے لیے ہزار سے کم رقم ضرور رکھتا ہوں، تاکہ بوقتِ ضرورت اپنے موبائل فون کو ری چارج کرسکوں، تاہم کمپنی نمائندہ نے بتایا کہ اس میں سود نہیں، کیوں کہ ہم اس پچاس منٹ پر بھی فی منٹ صارف سے کئی پیسے چارجز  کاٹ لیتے ہیں، اس لیے یہ سود نہیں۔

آپ جناب راہ نمائی فرمائیں کہ مذکورہ ایزی پیسہ اکاؤنٹ سے ملنے والی مراعات سود ہیں یا نہیں؟ اور اگر ہزار روپے سے کم رقم اکاؤنٹ میں رکھیں اور مذکورہ مراعات لیے بغیر اس اکاؤنٹ کا استعمال جائز ہے؟

جواب

"ایزی پیسہ اکاؤنٹ " ایک ایسی سہولت ہے جس میں آپ اپنی جمع کردہ رقوم  سے کئی قسم کی سہولیات حاصل کرسکتے ہیں، مثلاً: بلوں کی ادائیگی، یا رقوم کا تبادلہ، موبائل وغیرہ میں بیلنس کا استعمال وغیرہ ۔ نیز تحقیق کرنے پر یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان کی پشت پر ایک بینک ہوتا ہے، "telenor micro-financing bank "، یہ بھی ایک قسم کا بینک ہی ہے کہ جس میں عام طور پر چھوٹے سرمایہ داروں  کی رقوم سود پر رکھی جاتی ہیں اور اس میں سے چھوٹے کاروباروں کے لیے سود پر قرض بھی دیا جاتا ہے۔

اس کی فقہی حیثیت یہ ہے کہ اس اکاؤنٹ میں جمع کردہ رقم قرض ہے، اور  چوں کہ قرض دے کر اس سے کسی بھی قسم کا نفع اٹھانا جائز نہیں ہے؛ اس لیے اس قرض کے بدلے کمپنی کی طرف سے دی جانے والی سہولیات وصول کرنا اور ان کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے، لہذا   کمپنی  اکاؤنٹ ہولڈر کو اس مخصوص رقم جمع کرانے کی شرط پر  یومیہ فری منٹس اور میسیجز وغیرہ کی سہولت فراہم کرتی ہے یا رقم کی منتقلی پر ڈسکاؤنٹ وغیرہ دیتی ہے یا ایزی لوڈ پر کیش بیک دیتی ہے تو  ان کا استعمال جائز نہیں ہوگا، اس لیے کہ اس اکاؤنٹ میں رقم رکھوانا درحقیقت  قرض ہے، اور  قرض دینا تو فی نفسہ جائز ہے، لیکن کمپنی اس پر جو  مشروط منافع دیتی  ہے، یہ  شرعاً ناجائز ہے؛ اس لیے کہ قرض پر شرط لگا کر نفع  کے لین دین  کو نبی کریم ﷺ نے سود قرار دیا ہے۔ (مصنف بن أبی شیبہ، رقم:۲۰۶۹۰ )

 نیز   چوں کہ اس صورت  میں  مذکورہ اکاؤنٹ کھلوانا ناجائز معاملے کےساتھ مشروط ہے ؛ اس لیے یہ اکاؤنٹ کھلوانا یا کھولنا  بھی جائز نہیں ہوگا۔

اگر کوئی ’’ایزی پیسہ اکاؤنٹ‘‘  کھلواچکاہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ جلد از جلد مذکورہ اکاؤنٹ ختم کروائے اور صرف اپنی جمع کردہ رقم واپس لے سکتاہے، یا صرف جمع کردہ رقم کے برابر استفادہ کرسکتاہے، اس رقم پر ملنے والے اضافی فوائد حاصل کرنا اس کے لیے جائز نہیں ہوں گے۔

اور اگر  کوئی کمپنی ایزی پیسہ اکاؤنٹ  کھلوانے کو اس ناجائز معاملہ کے ساتھ مشروط  نہ کرے، یعنی مخصوص رقم  رکھوانے کی شرط کے بغیر ہی کھولا جائے،  یا کمپنی نے از خود کھول دیا ہو  تو  پھر رقم کی منتقلی، بلوں کی ادائیگی اور دیگر اس طرح کے کاموں کےلیے  اس اکاؤنٹ کا استعمال جائز ہوگا، اب اس صورت میں اس اکاؤنٹ کے استعمال کی صورت میں اگر کوئی رعایت یا کیش بیک ملتا ہے تو اس  کے حکم میں یہ تفصیل ہوگی کہ اگر وہ کیش بیک اور رعایت اسی کمپنی کی طرف سے مل رہا ہے  تو یہ ان کی طرف سے تبرع ہوگا، اور اس کا استعمال جائز ہوگا، اور اگر یہ رعایت اس کی پشت پر موجود بینک کی طرف سے مل رہا ہے تو پھر اس رعایت کا استعمال جائز نہیں ہوگا، اس بارے میں معلومات کرلی جائیں، اور جب تک معلومات نہ ہوں ان کیش بیک اور سہولیات کے استعمال سے احتیاط کی جائے۔

اور اگر کوئی کمپنی ایزی پیسہ اکاؤنٹ کھلوانے کو مخصوص رقم جمع کرانے سے بھی مشروط نہ کرے، اور رقم جمع کرنے پر اضافی رقم یا سہولیات وغیرہ بھی نہ دے، بلکہ رقوم کی منتقلی، بلوں کی ادائیگی یا لوڈ کرنے کی حد تک سہولیات ہوں تو ایسا اکاؤنٹ کھلوانا اور اس سے استفادہ کرنا جائز ہوگا۔ 

باقی جہاں تک یہ بات ہے کہ کمپنی ان پچاس منٹ اور ایم بیز پر کچھ پیسےچارجز کاٹتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عام طور پر   پچاس فری منٹس اور 50 ایم بی انٹرنیٹ کی قیمت اتنے کم پیسے نہیں ہوتی، (عموماً ایزی پیسہ اکاونٹ کی صورت میں کمپنی ان سہولیات پر پندرہ پیسہ چارج کرتی ہے)  بلکہ ان کی قیمت زیادہ ہوتی ہے، ایزی پیسہ والوں نے  ان کی قیمت اس ہزار روپے رکھنے کی وجہ سے کم رکھی ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر صارف اکاؤنٹ میں ہزار روپے نہ رکھوائے تو  مذکورہ فری منٹس اور انٹرنیٹ ایم بی اتنے کم معاوضہ پر نہیں دیے جاتے۔ اور جو ہزار روپے رکھے جاتے ہیں ان کی حیثیت قرض کی  ہے اور قرض پر کسی بھی قسم کا مشروط نفع سود ہے،  لہذا مذکورہ صورت جائز نہیں ہے۔

"فتاوی شامی" میں ہے:

"وفي الأشباه: كل قرض جر نفعاًحرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن". (5/166، مطلب کل قرض جر نفعا، ط: سعید)

وفیہ ایضا (6/ 63):
"وفي الخانية: رجل استقرض دراهم وأسكن المقرض في داره، قالوا: يجب أجر المثل على المقرض؛ لأن المستقرض إنما أسكنه في داره عوضاً عن منفعة القرض لا مجاناً".

"اعلاء السنن"میں ہے: 

" قال ابن المنذر: أجمعوا علی أن المسلف إذا شرط علی المستسلف زیادة  أو هدیة فأسلف علی ذلک، إن أخذ الزیادة علی ذلک ربا". (14/513، باب کل قرض جر  منفعة، کتاب الحوالة، ط: إدارة القرآن) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201738

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں