بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اہل بدعت رشتہ داروں سے تعلقات کا حکم


سوال

احادیث میں بدعتی سے متعلق کافی وعید آئی ہے, تو ہمارے جو رشتےدار بریلوی ہیں, ان سے کس طرح کا میل ملاپ رکھنا ہوگا ہمیں؟

جواب

اہلِ  بدعت اور فساق کے ساتھ پانچ قسم کے معاملے ہوتے ہیں:
1۔ موالات یعنی دوستی اور دلی تعلق۔2۔ مدارات یعنی ظاہری خوش اخلاقی ۔3۔مواساۃ یعنی احسان ونفع رسانی۔4۔ معاملات، یعنی خرید وفروخت۔5۔ مناکحت، باہم نکاح کرنا۔
ان معاملات میں تفصیل یہ ہے :

1۔ موالات (یعنی قلبی دوستی) تو کسی حالت میں جائز نہیں ۔
2۔  مدارات (یعنی خوش اخلاقی) تین حالتوں میں درست ہے ، ایک دفع ضرر(یعنی نقصان سے بچنے )کے واسطے ۔دوسرے اس  کی دینی مصلحت یعنی ہدایت کی توقع کے واسطے۔ تیسرے اکرامِ ضیف کے لیے ۔اور اپنی مصلحت یا مالی منفعت یا جاہ کے لیے درست نہیں ، خصوصاً جب کہ دینی ضرر (نقصان) کا بھی خوف ہوتو بدرجہ اولیٰ یہ اختلاط حرام ہوگا ۔
3۔  مواساۃ (یعنی احسان ونفع رسانی) کا حکم یہ ہے کہ اہلِ حرب کفار کے ساتھ( یعنی جن کفار سے جنگ وقتال ہے ان کے ساتھ) ناجائز ہے، اور غیر اہلِ حرب کفار کے ساتھ جائز ہے ۔ اور یہی حکم فساق اور اہلِ بدعت کا ہے ۔( مأخوذ از بیان القرآن :ص۱۱؍ج۳، آل عمران)

 

معاملات (خرید و فروخت) کا حکم یہ ہے کہ اگر اس میں صالح مسلمانوں کے معاشرے کو نقصان نہ ہوتاہو تو باہم خریدوفروخت بھی جائزہے۔(مستفاد از معارف القرآن)

5۔ مناکحت کا حکم یہ ہے کہ جو بدعت کفر تک نہ پہنچائے ایسے اہلِ بدعت سے گو نکاح حرام نہیں، بلکہ جائز ہے، لیکن اگر اہلِ بدعت کی اصلاح کی امید نہ ہو تو ان سے نکاح کرنے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر اس بات کی امید ہو کہ اچھے سلوک اور اچھے اخلاق کی وجہ سے متاثر ہوکر اہل بدعت آپ سے جڑ جائیں گے اور اپنی بدعت سے توبہ کرلیں گے تو ان سے تعلق رکھنا چاہیے اور ان کا خوب اکرام کرنا چاہیے، لیکن اگر اس بات کی بالکل کوئی امید نہ ہو اور ان سے تعلق رکھنے کی صورت میں اپنے بگڑنے کا اندیشہ ہو اور قطع تعلقی کرنے کی صورت میں ان کو اور دیگر لوگوں کو  عبرت ہونے اور توبہ کرنے کی امید ہو تو اس صورت میں ان سے قطع تعلقی کر لینی چاہیے؛ تاکہ وہ راہِ راست پر آجائیں۔ ایسے لوگ جو علانیہ گناہوں اور بدعات  کاارتکاب کرنے والے ہوں اوراپنے عمل سے باز نہ آتے ہوں ان سے میل جول، بات چیت ترک کردیناشریعت میں ثابت ہے، لہذا اس صورت میں ان کے ساتھ  اصل ہم دردی یہی ہے کہ انہیں راہِ راست پرلانے اور دیگرلوگوں کی عبرت کے لیے ان سے قطع تعلق کیاجائے ، ایسے لوگوں کے ساتھ  تعلق قائم رکھ کر ہم دردی کرنا  گناہ اور غلط کاموں میں معاونت اوران کی حوصلہ افزائی ہے۔

"فتح الباری" میں ہے:

"(قوله: باب ما يجوز من الهجران لمن عصى )

 أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز؛ لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع، فتبين هنا السبب المسوغ للهجر وهو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها". (فتح الباری،10/497،ط:دارالمعرفة بیروت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200078

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں