بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر کوئی وقوف عرفہ کے بعد اور طواف زیارت سے پہلے مرگیا


سوال

اگر کوئی وقوفِ عرفہ کے بعد اور طوافِ زیارت سے پہلے مرگیا تو کیا اس کا حج ہوگیا یا نہیں؟  اور اگر نہیں تو مکمل کیسے کیا جائے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جس سال حج فرض ہوا، اگر اسی سال حج کے لیے گیا ہو تو جتنی ادائیگی اپنے بس میں تھی سو کرلی حج ہوگیا،  کوئی دم لازم نہیں۔

اور اگر حج فرض ہونے کے بعد اسی سال حج نہیں کیا ایک سے زیادہ سال تاخیر کرکے حج کے لیے گیا اور وقوفِ عرفہ کے بعد اور طوافِ زیارت سے پہلے انتقال کر گیا ہو تو اس پر ایک بدنہ (اونٹ یا گائے) کی وصیت لازم تھی، اگر وصیت کی تو بدنہ حدودِ حرم میں ذبح کرنا لازم ہے، اور یہ بدنہ اس کے طوافِ زیارت، وقوفِ مزدفلہ اور رمی سب کے لیے کافی ہوجائے گا اور حج مکمل ہوجائے گا۔ اور اگر وصیت نہیں کی تھی اور ورثاء اپنی طرف سے یہ کام سرانجام دیں تو ان شاء اللہ مقبول ہوجائے گا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"فلو خرج ومات في الطريق لم يجب الإيصاء؛ لأنه لم يؤخر بعد الإيجاب". (کتاب الحج، ج:2، ص: 459، ط: سعید)

فتح القدیر میں ہے:

"أن وجوب الإيصاء إنما يتعلق بمن لم يحج بعد الوجوب إذا لم يخرج إلى الحج حتى مات، فأما من وجب عليه الحج فحج من عامه فمات في الطريق لايجب عليه الإيصاء بالحج، لأنه لم يؤخر بعد الإيجاب". (کتاب الحج ج:2، ص: 422، ط: دار الکتب العلمیۃ)

ارشاد الساری میں ہے:

"«(ولا فوات قبل الممات ولايجزئي عنه البدل) أي الجزاء (إلا إذا مات بعد الوقوف بعرفة) متعلق بالوقوف (وأوصي بإتمام الحج تجب البدنة لطواف الزيارة وجاز حجه) أي صح وكمل، لكن في الطرابلسي عن محمد فيمن مات بعد وقوفه بعرفة وأوصي بإتمام الحج: يذبح عنه بدنة للمزدلفة والرمي والزيارة والصدر، وجاز حجه»". (باب طواف الزیارۃ، ص: 155، 156، ط: مصطفیٰ محمد)

فتاوی شامی میں ہے:

"«ولا فوات قبل الممات، ولايجزي عنه البدل إلا إذا مات بعد الوقوف بعرفة وأوصى بإتمام الحج تجب البدنة لطواف الزيارة، وجاز حجه»". (مطلب فی طواف الزیارۃ، ج:2، ص: 517، ط: سعید)

فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

’’(سوال 114) ایک شخص پر حج فرض تھا، اس بنا پر وہ فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے گیا، وقوفِ عرفہ کے بعد اس شخص کا انتقال ہوگیا، طوافِ زیارت نہ کرسکا اور اسی طرح وقوفِ مزدلفہ  اور رمی جمار نہ کرسکا تو اب کیا حکم ہے؟ کیا ان کے لیے علیحدہ دم لازم ہوگا؟ مفصل تحریر فرما کر ممنون فرمائیں۔ بینوا توجروا۔

(الجواب) جس سال حج فرض ہوا اگر اسی سال حج کے لیے گیا ہو تو دم وغیرہ کی وصیت لازم نہیں ہے، اور اگر اسی سال نہ گیا ہو، بلکہ ایک دو سال تاخیر کرکے گیا ہو اور وقوفِ عرفہ کے بعد طوافِ زیارت کرنے سے پہلے انتقال ہوگیا تو اس پر بدنہ (یعنی بڑا جانور اونٹ یا گائے) ذبح کرنے کی وصیت لازم ہے اور یہ بدنہ وقوفِ مزدلفہ، رمیِ جمار، طوافِ زیارت سب کے لیے کافی ہوجائے گا، وقوفِ  مزدلفہ اور رمی وغیرہ کے ترک سے علیحدہ دم لازم نہ ہوگا۔  اور اگر وصیت نہیں کی اور ورثاء اپنی طرف سے یہ کام انجام دیں تو ان شاء اللہ مقبول ہوجائے گا اور یہ بدنہ حرم ہی میں ذبح کیا جائے‘‘۔ (کتاب الحج، ج:8، ص: 101، ط: دارالاشاعت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200851

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں