بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

"اگر تو میرے باپ کی موت پر گئی تو تجھے تین طلاق" کہنے کے بعد طلاق سے بچنے کی تدبیر


سوال

صورتِ مسئلہ کچھ  اس طرح ہے کہ شوہر نے بیوی سے کہا: "اگر تو میرے باپ کی موت پر گئی تو تجھے تین طلاق"۔واضح رہے کہ یہ آدمی اپنے باپ سے الگ رہتا ہے اور اس کا باپ ابھی زندہ ہے اور ہسپتال میں زیرِ علاج ہے۔

1. اب اس صورت میں بتائیں کہ باپ کی موت سے پہلے کوئی حیلہ ہو سکتا ہے یا نہیں؟

2. اور اگر باپ فوت ہو جائے اور میت اسی طلاق معلق کرنے والے بیٹے کے گھر لائی جائے اور اس بیٹے کی بیوی ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جا کر میت دیکھ لے تو آیا اس سے بھی طلاق واقع ہو جائے گی؟

جواب

1. اگر کسی شخص  نے اپنی بیوی سے یوں کہا: "اگر تو میرے باپ کی موت پر گئی تو تجھے تین طلاق" تو اس صورت میں اگر بیوی اپنے شوہر کے والد کے انتقال پر جاتی ہے تو اس پر تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی، ہاں اگر بالفرض ایسی صورت پیش آ جائے کہ والد کے انتقال سے پہلے شوہر  ایک طلاق دے دے اور عدت گزرنے کے بعد والد کا انتقال ہو جائے  اور بیوی اپنے سسر کے انتقال پر چلی جائے تو نکاح کے نہ ہونے کی وجہ سے کوئی طلاق واقع نہ ہو گی اور دونوں کو دوبارہ نکاح کرنے کا اختیار ہو گا اور شوہر کے پاس آئندہ کے لیے دو  طلاق کا حق حاصل ہو گا۔

چوں کہ کسی کی موت کا یقینی علم نہیں کہ کب ہوگی؟ اس لیے پہلے سے ایک طلاقِ بائن دینا اور عدت کے بعد والد کی موت کا انتظار کرنا مناسب نہیں ہے، اس میں بہت سے مفاسد کا بھی اندیشہ ہے، اس لیے بہتر حل وہ ہے جو اگلے جز میں آرہاہے۔ 

2. اگر والد کے انتقال پر میت اسی گھر میں لائی جائے اور بیوی ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں میت کو دیکھنے کے  لیے چلی جائے تو اس سے طلاق واقع نہ ہو گی۔ اس لیے طلاق سے بچنے کے لیے یہ تدبیر اختیار کی جاسکتی ہے کہ اگر مذکورہ عورت کے سسر کا اس سے پہلے انتقال ہوجاتاہے تو میت اسی کے گھر میں لے آئی جائے جہاں ان کی رہائش ہے،  اس صورت میں شرط (یعنی جانا) نہیں پائی جائے گی۔ بصورتِ دیگر تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔

الفتاوى الهندية (2/ 78):
"ولو حلف لايخرج لايحنث إلا بالخروج إلى السكة، كذا في الخلاصة".

الفتاوى الهندية (2/ 79):
"ولو حلف لايخرج من بيته يعني هذا البيت الذي هو فيه فخرج إلى صحن الدار حنث، قال المتأخرون من مشايخنا: هذا الجواب بناء على عرفهم، فأما في عرفنا فصحن الدار يسمى بيتًا فلايحنث ما لم يخرج إلى السكة، وعليه الفتوى". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201990

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں