بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اکاؤنٹ میں رقم کی شرط پر مفت منٹس کا حکم


سوال

اکاؤنٹ میں اگر ہزار روپے ہوں تو وہ آپ کو 50منٹ مفت دیتے ہیں، دوسرا اگر اس میں آپ یہ 50منٹ استعمال نہیں کرتے اور ہزار کا پیکج لگادیں تواکاؤنٹ میں ایک ہزار پچاس منٹ ہوں گےتو اس کے استعمال کی کیا صورت ہو گی؟

جواب

واضح رہے کہ اکاؤنٹ میں رکھی گئی رقم کی شرعی حیثیت قرض کی ہے،  اب اگر کمپنی کی طرف سے یہ شرط ہو کہ ایک ہزار رکھنے  کی صورت میں یومیہ  پچاس منٹ ملیں گے تو یہ قرض پر  طے شدہ نفع ہے جو کہ سود ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے اور اس نفع کے حاصل کرنے کی غرض سے اکاؤنٹ میں رقم جمع کروانا اور پھر حاصل شدہ نفع کو استعمال کرنا حرام ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

{وأحل الله البيع وحرم الربوا} ﴿البقرة: 275﴾

حدیث شریف میں ہے:

«وروي أن غبن المسترسل ربا، وإن كل قرض جر نفعاً فهو ربا»". (فتح الباري، كتاب الإيمان، 3/370)

شرح معانی الآثار میں ہے:

«ثم حرم الربوا بعد ذلك وحرم كل قرض جر نفعاً». (ج:4، ص:99، ط: دارالكتب العلميه)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"الربا هو لغةً: مطلق الزيادة. وشرعاً (فضل) ولو حكماً فدخل ربا النسيئة والبيوع الفاسدة فكلها من الربا؛ فيجب رد عين الربا لو قائماً، لا رد ضمانه؛ لأنه يملك بالقبض، قنية وبحر (خال عن عوض) خرج مسألة صرف الجنس بخلاف جنسه (بمعيار شرعي) وهو الكيل والوزن فليس الذرع والعد برباً، مشروط) ذلك الفضل (لأحد المتعاقدين) أي بائع أو مشتر فلو شرط لغيرهما فليس برباً بل بيعاً فاسداً (في المعاوضة)". (باب الربوا، ج: 3، ص: 168 تا 170)، ط: سعيد)

2۔ پیکج لگانے کی صورت میں جو ایک ہزار پچاس منٹ جمع ہوجائیں گے ان میں سے صرف ہزار منٹ استعمال کرنے کی اجازت ہوگی،  ہزار منٹ کے استعمال کے بعد جو  پچاس منٹ باقی رہ جائیں گے ان کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

البتہ مذکورہ اکاؤنٹ (جو مشروط ہوتاہے) کھلوانا چوں کہ ناجائز معاملے کے ساتھ مشروط ہوتا ہے، اس لیے اپنے ارادے سے یہ اکاؤنٹ کھلوانا ہی جائز نہیں ہے، اگر  اپنے ارادے سے اکاؤنٹ کھلویا ہو (خواہ لاعلمی میں کھلوایا) تو جتنا جلد ہوسکے اس اکاؤنٹ کو بند کرنے کی کوشش کرے، اور ناجائز معاملہ کرنے پر استغفار کرے۔ اگر غیر اختیاری طور پر کمپنی کی طرف سے کھول دیا گیا ہو تو اس میں صارف گناہ گار نہیں ہوگا، ایسی صورت میں صرف اپنی رقم کے بقدر خدمات سے استفادہ کرنے میں حرج نہیں ہے۔  فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وعن محمد رحمه الله: غصب عشرة دنانير فألقى فيها ديناراً، ثم أعطى منه رجلاً ديناراً جاز، ثم ديناراً آخر لا، كذا في التاتار خانيه ناقلاً عن جامع الجوامع". (ج:5، ص: 151، ط: دارالفكر)

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے:

’’سرمایہ جب ناجائز آمدنی میں مخلوط ہوجائے تو کیا کرے؟

جواب: اس قدر روپیہ جو تنخواہ سے جمع کیا گیا تھا علیحدہ کرلیا جاوے علیحدہ کرلینے سے وہ رقم حلال وپاک اور صاف ہوجائے گی‘‘۔ (کتاب المناسک، ج: 6، ص: 357، ط: دارالاشاعت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200745

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں