بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی سگی ماں کے بوسہ سے حرمتِ مصاہرت


سوال

اگر کسی شخص نے اپنی سگی ماں کا بوسہ لیا ،اور اس(شخص) کو بلاقصد شہوت آگئی توکیا حکم ہے؟ کیا اس کی ماں اس کے باپ پر حرام ہوجائے گی یا کوئی اور حکم ہوگا؟

جواب

چھونے سے حرمت مصاہرت ثابت ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط  کا پایا جانا ضروری ہے، لہذا  اگر آدمی کے اپنی ماں کو چھونے میں   مذکورہ شرائط پائی جاتی ہیں تو حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجائے گی یعنی ماں باپ کا رشتہ ختم ہو جائے گا،  ورنہ نہیں ہوگا:

1)        مس بغیر حائل کے ہو یعنی درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ نہ ہو، یا  درمیان میں حائل اس قدر باریک ہو   کہ اس سے جسم کی حرارت پہنچتی ہو۔

2)       وہ بال جو سر سے نیچے لٹکے ہوئے ہوئے ہیں ان کو چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، بلکہ صرف ان بالوں کو چھونے سے حرمت ثابت ہوگی جو سر سے ملے ہوئے ہیں ۔

3)      چھوتے وقت جانبین میں یا کسی ایک میں شہوت  پیدا ہو، مرد کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ   اس کے آلہ تناسل میں انتشار پیدا ہوجائے، اور اگر آلہ تناسل پہلے سے منتشر ہو تو اس میں اضافہ ہوجائے، اور  بیمار  اور بوڑھے  مرد جن کو انتشار نہیں ہوتا اور عورتوں کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ  دل  میں  ہیجان  کی کیفیت پیدا ہو اور دل کو لذت حاصل ہو،اور دل کا ہیجان پہلے سے ہوتو اس میں اضافہ ہوجائے۔

4)      شہوت چھونے کے ساتھ ملی ہوئی ہو ،  اگر چھوتے وقت شہوت پیدا نہ ہو، اور پھر بعد میں شہوت پیدا ہوتو اس کا اعتبار نہیں ہے،اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

5)      شہوت تھمنے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو، اگر انزال ہوگیا تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

6)      عورت کی عمر کم از کم نو سال اور مرد کی عمر کم ازکم بارہ سال ہو۔

7)      اگر چھونے والی عورت ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرے  یا چھونے والا مرد ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرےتو شوہر کو  اس خبر کے سچے ہونے کا غالب گمان ہو، اس لیے اس دعوی سے شوہر کا حق باطل  ہوتاہے ،اس لیے  صرف دعوی کافی نہیں،  بلکہ شوہر کو ظنِ غالب  حاصل ہونا  یا  شرعی گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 36):
"ومراهق، ومجنون وسكران كبالغ، بزازية. 
(قوله: كبالغ) أي في ثبوت حرمة المصاهرة بالوطء، أو المس  أو النظر ولو تمم المقابلات بأن قال كبالغ عاقل صالح لكان أولى ط وفي الفتح: لو مس المراهق وأقر أنه بشهوة تثبت الحرمة عليه. (قوله: بزازية) لم أر فيها إلا المراهق دون المجنون والسكران نعم رأيتهما في حاوي الزاهدي". 

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 260):
"وأما الفرقة الثالثة فحليلة الابن من الصلب وابن الابن وابن البنت وإن سفل فتحرم على الرجل حليلة ابنه من صلبه بالنص وهو قوله عز وجل: {وحلائل أبنائكم الذين من أصلابكم} [النساء: 23]".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200731

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں