بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی بیوی کے زیورات کی زکاۃ اپنے سسر کو نہیں دے سکتے


سوال

میں اپنی زکاۃ اپنے سسر کو دیتا رہا تقریباً دس سال تک، کیوں کہ وہ مقروض اور مستحق تھے۔ اس زکات میں وہ سونا بھی داخل تھا جو میری بیوی اپنے ساتھ لائی تھی جس کی مقدار کل مقدار کے آدھے کے برابر تھی۔ میں نے مسئلہ ایک عالم سے پوچھا تھا، انہوں نے بتایا تھا کہ  جو سونا بیوی اپنے ساتھ لائے اس کی مالک وہی ہوتی ہے اور جو سونا مرد کی طرف سے ہو اس کا مالک مرد ہوتا ہے۔ مگر میں یہ سمجھتا رہا کہ میری بیوی جو سونا لائی ہے، اس کی مقدار بہت تھوڑی ہے جس پر میں نے اس سے کہا کہ  تم اپنے سونے کا مالک بھی مجھے بنا دو،  جس پر وہ بظاہر تو راضی ہوگئی تھی۔ ایک ماہ قبل میرے گھر میں چوری ہوئی اور چند گرام سونے کے علاوہ سارا سونا چوری ہوگیا۔

میرا سوال ہے کیا میری زکات ادا ہو گئی یا اب مجھے دس سال کے زیور کی زکاۃ دوبارہ ادا کرنی ہو گی؟

جواب

آپ کی بیوی جو زیورات لائیں ان کی ملکیت کے بارے میں  حکم یہ ہے کہ جو زیور وہ اپنے ساتھ لائی تھیں،  اس کی مالک وہی تھیں۔ پھر جب آپ نے ان سے کہا کہ وہ اپنے زیور کا مالک آپ کو بنادیں تو اگر آپ کی بیوی نے اپنے زیورات آپ کے حوالہ کرکے آپ کو ان زیورات کا مالک بنایا تھا تو جس وقت سے آپ کو مالک بنایا تھا، اس کے بعد اس کی زکاۃ آپ کے ذمہ تھی،  لیکن اگر آپ کو زیورات حوالہ کرکے مالک نہیں بنایا تھا بلکہ زیور بیوی کے پاس ہی رہا، تو آپ ان زیورات کے مالک نہیں بنے،  چاہے زبانی طور پر بیوی نے آپ کے مالک بن جانے پر رضامندی کا اظہار ہی کیوں نہ کردیا ہو۔

آپ نے جو سونا اپنی بیوی کو دیا تھا تو اس کی ملکیت  کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر آپ نے صرف استعمال کے لیے دیا تھا، مالک بنا کر نہیں دیا تھا تو ان زیورات کے مالک آپ تھے، لیکن اگر آپ نے اپنی بیوی کو ہدیہ کے طور پر وہ سونا مالک بنانے کی نیت سے دیا تھا تو اس کی مالک آپ کی بیوی تھیں۔

مذکورہ تفصیل کو سامنے رکھتے ہوئے موجودہ سونے  اور چوری کیے گئے سونے کی زکاۃ کا حکم یہ ہے کہ جو سونا آپ کی بیوی کی ملکیت تھا تو جتنے عرصے تک وہ آپ کی بیوی کی ملکیت میں رہا، اس سونے کی زکاۃ آپ کےسسر کو دینے سے زکاۃ ادا نہیں ہوئی،  کیوں کہ زکاۃ کی رقم اپنے والد کو نہیں دی جاسکتی، اس رقم کی زکاۃ دوبارہ دینا لازم ہے۔ اور جو سونا آپ کی ملکیت تھا، اس کی زکاۃ ادا ہوگئی۔

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل". (فتاوی شامی، ۵/ ۶۹۰، سعید)

"جعلته باسمك فإنه ليس بهبة". (فتاوی شامی، ۵/ ۶۸۹، سعید)

"جهز بنته وزوجها، ثم زعم أن الذي دفعه إليها ماله وكان على وجه العارية عندها، وقالت: هو ملكي جهزتني به، أو قال الزوج ذلك بعد موتها، فالقول قولهما دون الأب، وحكى عن علي السغدي: أن القول قول الأب، وذكر مثله السرخسي، وأخذ به بعض المشايخ، وقال في الواقعات: إن كان العرف ظاهراً بمثله في الجهاز كما في ديارنا فالقول قول الزوج، وإن كان مشتركاً فالقول قول الأب، كذا في التبيين. قال الصدر الشهيد - رحمه الله تعالى - وهذا التفصيل هو المختار للفتوى، كذا في النهر الفائق". (الفتاوی الهندیة، ۱/ ۳۲۷، رشیدیة)

"ولايدفع إلى أصله، وإن علا". (الفتاوی الهندیة، ۱/ ۱۸۸، رشیدیة) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008202010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں