بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنا کل سرمایہ دین کے لیے وقف کرنا


سوال

میں 2سال سے کاروبار کر رہا ہو ں، تقریباً آٹھ لاکھ کے قریب ہے، لیکن مجھے اس سے فائدہ نہیں ہوا۔اب میں نے سوچا ہے کہ اپنا سارا کاروبار  میں لگا ہوا سرمایہ  کسی دین کی اشاعت کرنے والے ادارے کو دے دوں، اس سے کیا یہ میرا صدقہ یا خیرات میں قبول ہوگا کہ نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ طیبِ نفس کے ساتھ  اپنا پورا سرمایہ دینی خدمت سرانجام دینے والے ادارے  کو وقف کرنا چاہتے ہیں تو کرسکتے ہیں، تاہم بہتر یہ ہوگا کچھ حصہ اپنی ضروریاتِ زندگی کے لیے رکھ لیں تاکہ بعد میں پچھتاوا نہ ہو ،جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰی عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْماً مَّحْسُوْراً﴾ (الإسراء:29)

ترجمہ: اور تم اپنے ہاتھ کو اپنی گردن کے ساتھ نہ باندھ لو (کنجوسی کی وجہ سے کچھ خرچ ہی نہ کرو) اور نہ ہاتھ بالکل کھول دو ( یعنی سب کچھ لٹادو) پھر تم ملامت کرتے تنگ دست ہو کر بیٹھ جاؤ۔

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو کل مال اللہ کی راہ میں دینے سے منع فرمایا تھا اور ایک تہائی کے صدقہ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ایک تہائی بھی بہت ہے۔نیز  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ بھی فرمایا: تم اپنے ورثہ کو اس حال میں چھوڑو کہ ان کے پاس مال موجود ہو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑو کہ وہ لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کریں۔ (صحیح بخاری، کتاب الوصایا، باب أن یترک ورثتہ اغنیاء خیر حدیث نمبر 2742)۔

بہر حال آپ کا جذبہ نیک اور قابلِ قدر ہے، لیکن آپ کے لیے شرعاً بہتر صورت یہ ہے کہ اپنی ضرورت کو مدِّ نظر رکھ کر اضافی رقم صدقہ کریں، اس سلسلے میں ایک تہائی مال بھی شریعت کی نگاہ میں کثیر سمجھاگیاہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200017

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں