بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کی تنخواہ میں والدین کا کتنا حق ہے؟


سوال

میری تنخواہ میں میرے والدین کتنی فیصد کا مطالبہ کر سکتے ہیں  یا میں ان کو کتنا خرچہ دینے کا پابند ہوں?

جواب

بصورتِ مسئولہ والدین کا اپنی اولاد کے مال یا  تنخواہ  میں فی صد کے حساب سے شرعاً  کوئی حصہ مقرر نہیں، البتہ  ضرورت مند والد ین کا نفقہ اس کے بیٹے پر لازم ہے،  نیز فقہاءِ کرام  نے لکھا ہے کہ  اگر والد محتاج اور غریب ہو اور اپنی اولاد کے مال کا محتاج ہو  تو ایسی صورت میں والد اپنے بیٹے کے مال میں سے بقدرِ ضرورت لے کر استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے،  اور اس میں اولاد سے اجازت لینے کی ضرورت بھی نہیں،لہذا والدین مطلقاً اپنی اولاد کے مال یا تنخواہ کے  کسی خاص  کے مالک نہیں ہیں، بلکہ یہ صرف احتیاج اور ضرورت کے ساتھ مقید ہے۔ اور اگر انہیں ضرورت نہ ہو تو والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور اِحسان کا تقاضا ہے کہ اولاد حسبِ استطاعت والدین کی خدمت کرتی رہے۔

حاشية السندي على سنن ابن ماجه (2/ 43):
"وظاهر الحديث أن للأب أن يفعل في مال ابنه ما شاء، كيف وقد جعل نفس الابن بمنزلة العبد مبالغةً، لكن الفقهاء جوّزوا ذلك للضرورة. وفي الخطابي يشبه أن يكون ذلك في النفقة عليه بأن يكون معذورًا يحتاج إليه للنفقة كثيرًا، وإلّا يسعه فضل المال، والصرف من رأس المال يجتاح أصله ويأتي عليه فلم يعذره النبي صلى الله عليه وسلم ولم يرخص له في ترك النفقة، وقال له: أنت ومالك لوالدك، على معنى أنه إذا احتاج إلى مالك أخذ منه قدر الحاجة، كما يأخذ من مال نفسه، فأما إذا أردنا به إباحة ماله حتى يجتاح ويأتي عليه لا على هذا الوجه، فلاأعلم أحدًا ذهب إليه من الفقهاء".

التيسير بشرح الجامع الصغير (2/ 210):
" عَن أبي هُرَيْرَة ... كل أحد أَحَق بِمَالِه من وَالِده وَولده وَالنَّاس أَجْمَعِينَ) لَايناقضه "أَنْت وَمَالك لأَبِيك"؛ لِأَن مَعْنَاهُ إِذا احْتَاجَ لمَاله أَخذه، لَا أَنه يُبَاح لَهُ مَاله مُطلقًا".

شرح سنن الترمذي (20/ 262):
"وفي حديث جابر: أنت ومالك لأبيك. قال ابن رسلان: اللام للإباحة لا للتمليك، لأنّ مال الولد له وزكاته عليه وهو موروث عنه، انتهى".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201005

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں