بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کا والد کے کاروبار کو محنت کرکے ترقی دینے کی صورت میں کاروبار کی ملکیت کا حکم


سوال

والد نے اپنے کاروبار میں چند بیٹوں کو شریک کیا،  بچوں نے کاروبار میں محنت کر کے اسے کا فی بڑھایا ، اس دوران والد نے کاروبار کلی طور پر بچوں پہ چھوڑ دیا اور خود کبھی کبھی دوکان پہ جاکر صرف دیکھ بھال کرتے، بچوں کی صورتِ حال یہ ہے کہ ہر ایک اپنی فیملی کے ساتھ علیحدہ رہ رہاہے۔ البتہ خرچہ سب اسی کاروبار سے ہی لیتے ہیں۔ سوالات یہ ہیں:

1- اس صورت میں جن بھائیوں نے محنت کر کے کمائی کی اور  اس سے گھر وغیرہ بنائے ان کا حق دار  کون ہوگا،  تمام ورثہ یا وہ بھائی؟

2- کیا والد اپنے ان بیٹوں کو زیادہ ہبہ کر سکتا ہے جن کی کاروبار میں ان تھک محنت ہے؟شرعاً  کوئی پکڑ تو نہیں؟ جب وراثت تقسیم ہوگی  تو اس کو کس قیمت پر تقسیم کیا جائے گا؟  جو والد کے زمانہ کاروبار میں تھی یا جو اس کی وراثت کے وقت ہوگی؟

3- جو کاروبار مقروض بھی ہو اور اس کا بھی لوگوں نے قرض دینا ہو اس کی تقسیم کیسے کی جائے گی،جب کہ جو پیسہ لوگوں کے پاس ادھار ہے اس میں کافی مقدار ڈوبی  ہوئی ہے؟

جواب

1- صورتِ مسئولہ میں  کاروبار اور اضافہ سب  والد صاحب ہی کی ملکیت شمار ہوگا۔

2-    والد صاحب  اگر اپنی  زندگی میں جائیداد  تقسیم کر نا چاہتے ہیں  تو  اپنے اور اپنی اہلیہ کے لیے جتنا چاہیں رکھنے کے بعد اپنی تمام اولاد کے درمیان برابر تقسیم کریں،  البتہ  اگر کسی بیٹے کو کاروبار میں  اس کی زیادہ محنت کی وجہ سے دوسروں کی بنسبت کچھ زیادہ دیتے ہیں  اور اس سے  دوسروں کا نقصان پہنچانا مقصود نہیں ہے تو شرعاً اس کی اجازت ہے ۔

3- میراث کی صورت میں تمام ورثاء اپنے شرعی حصص کے مطابق حق دار ہوں گے  اور مکان کی  موجودہ قیمت کا اعتبار ہوگا۔ اور قرض کی صورت  یہ ہے کہ جب بھی قرض وصول ہو جائے تو  ورثاء کے شرعی حصص کے مطابق  ان میں تقسیم کیا جائے گا۔

فتاوی شامی  میں  ہے: 

"الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في  عياله". (ج:٤،ص:٣٢٥،ط:سعيد)

وفيه أيضاً:

"وكذلك لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية ولواختلفوا  في العمل والرأي".

الدرالمختارمیں ہے:

"وَفِي الْخَانِيَّةِ: لَا بَأْسَ بِتَفْضِيلِ بَعْضِ الْأَوْلَادِ فِي الْمَحَبَّةِ؛ لِأَنَّهَا عَمَلُ الْقَلْبِ، وَكَذَا فِي الْعَطَايَا إنْ لَمْ يَقْصِدْ بِهِ الْإِضْرَارَ، وَإِنْ قَصَدَهُ فَسَوَّى بَيْنَهُمْ يُعْطِي الْبِنْتَ كَالِابْنِ عِنْدَ الثَّانِي وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى". (5/696،  کتاب الھبۃ، ط؛ سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200087

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں