بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انما انا القاسم و اللہ المعطی، حدیث کا کیا مطلب ہے؟


سوال

"إنما أنا قاسم والله یعطي"  اس کی تفصیل سے وضاحت فرما دیں!

جواب

حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں: "إنما أنا القاسم و الله المعطي".  مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتے، نہ کسی کو اپنی مرضی سے کچھ عطا فرماتے ہیں اور نہ کسی سے عطا کو  اپنی مرضی سے روکتے ہیں،  نہ کسی کو زیادہ یا کم دینے میں اپنی مرضی کو شامل کرتے ہیں، بلکہ یہ سب اللہ رب العزت کی مرضی کے تابع رہتے ہوئے کرتے ہیں؛ لہٰذا مطلب یہ ہوا کہ دینے والے اللہ تعالیٰ ہیں اور میں تو تقسیم کرنے والا ہوں۔ جیسا کہ ’’فتح الباری شرح صحیح البخاری‘‘ میں ہے:

’’ [٣١١٧] قَوْلُهُ: ’’مَا أُعْطِيكُمْ وَلَا أَمْنَعُكُمْ‘‘ فِي رِوَايَةِ أَحْمَدَ عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ عَنْ فُلَيْحٍ فِي أَوَّلِهِ: ’’وَاللَّهُ الْمُعْطِي‘‘، وَالْمَعْنَى: لَا أَتَصَرَّفُ فِيكُمْ بِعَطِيَّةٍ وَلَا مَنْعٍ بِرَأْيِي. وَقَوْلُهُ: ’’إِنَّمَا أَنَا الْقَاسِمُ أَضَعُ حَيْثُ أُمِرْتُ‘‘: أَيْ لَا أُعْطِي أَحَدًا وَلَا أَمْنَعُ أَحَدًا إِلَّا بِأَمْرِ اللَّهِ. وَقَدْ أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ مِنْ طَرِيقِ هَمَّامٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ بِلَفْظِ: إِنْ أَنَا إِلَّا خَازِنٌ‘‘ ( ٦/ ٢١٨) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200823

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں