بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

انسانی اعضاء کا عطیہ کرنا


سوال

میڈیکل سائنس میں اعضاء کا عطیہ کیا جاتا ہے، جیسا کہ لوگ کسی کو گردہ ، آنکھ وغیرہ عطیہ کرتے ہیں۔مغربی ممالک میں ایسا کرنا بہت عام ہے ،لوگ مرنے کے بعد اپنی آنکھیں ، دل کا عطیہ کرتے ہیں۔

1۔کیا اعضاء کا عطیہ کرنا درست ہے ؟

2۔اگر فرض کریں جس انسان کو آنکھیں عطیہ کی گئی ہیں اور وہ  آنکھوں سے کوئی گناہ کرتا ہے تو کیا آنکھیں عطیہ کرنے والے انسان کو بھی گناہ ملے گا یا نہیں؟

جواب

1 ۔ انسان کے اعضاء اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں، جنہیں خود جائز حدود میں استعمال کرنے اور ان سے نفع اٹھانے کا انسان کو حق حاصل ہے، لیکن انسان اپنے اعضاء کا مالک نہیں ہوتا، نہ ہی انسانی اعضاء  مال ہیں ؛ اس لیے نہ ہی انسان اپنے اعضاء میں سے کسی عضوکوہبہ کرسکتاہے اورنہ عطیہ کرنے کی وصیت کرسکتاہے۔ اعضائے انسانی  کا زندگی میں یابعد از مرگ کسی کوعطیہ کرنا ناجائزوحرام ہے۔نیز انسان قابلِ احترام وتکریم ہے،اس کے اعضاء میں سے کسی عضو کو اس کے بدن سے جدا کرکے دوسرے انسان کودینے میں  انسانی تکریم کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، اسی بناپرفقہاءِ کرام نے علاج معالجہ اورشدیدمجبوری کے موقع پربھی انسانی اعضاء کے استعمال کو ممنوع قراردیاہے۔مزیدتفصیلات کے لیے حضرت مولانامفتی محمدشفیع رحمہ اللہ کی کتاب''انسانی اعضاء کی پیوندکاری'' کامطالعہ فرمائیں۔

2۔ اگر مرنے والے نے کسی عضو کے دینے کی وصیت کی تو  ایک ناجائز عمل کی وصیت کرنے کی وجہ سے وہ  گناہ گار ہوگا۔البتہ کسی انسان کے جسم کا کوئی عضو جدا کرکے کسی دوسرے شخص کو لگادیاگیاہو  اور دوسراشخص اس عضو کو گناہ میں استعمال کرے تو اپنا عضو عطیہ کرنے والا شخص اس دوسرے شخص کے اس گناہ میں شریک نہیں ہوگا ؛اس لیے کہ یہ فعل دوسرے شخص کا ہوگا، اور یہ عضو بھی دوسرے شخص کے جسم کا حصہ بن چکاہوگا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143904200045

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں