بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انت طالق ثلاثاً سے تین طلاق ہوتی ہے تو حمدت مائۃ مرۃ سے سو تحمید کیوں نہیں ہوتیں؟


سوال

 جس طرح  ’’أنت طالق ثلاثاً‘‘ سے تین طلاق واقع ہو جاتی ہے تو یہ کہنے سے کہ حمدت مائة‘‘ سے سو مرتبہ تحمید کیوں نہیں ہوتی تو تین طلاق واقع کیوں ہو جاتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اپنی بیوی کو "أنت طالق ثلاثاً" کہنے سے تین طلاقیں واقع ہوں گی، لیکن اگر کوئی شخص یہ کہتاہے "حمدت مائة"  تو اس کہنے سے سو مرتبہ تحمید نہیں ہوتی، اسے"أنت طالق ثلاثاً" پر قیاس کرنا درست نہیں،  اس لیے کہ دونوں میں فرق ہے،  وجہ فرق یہ ہے:

کسی شے کے تعدد کو بتانے کے لیے استعمال ہونے والے  لفظ "مرة"  کا استعمال دو طرح سے ہوتا ہے:کبھی یہ فعل  کی تعداد بتانے کے لیے آتا ہے، اسے "مرة فعلیة " کہتے ہیں، کبھی یہ  عین کی تعداد بتانے کے لیے آتا ہے، اس کا اکثر استعمال فعل میں ہوتا ہے، عین کی تعداد بتانے کے لیے  استعمال ہونے کی مثال جیساکہ حدیثِ پاک میں آتا ہے:

"عن أنس أن أهل مكة سألوا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يريهم آيةً، فأراهم انشقاق القمر مرتين".

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ اہلِ  مکہ نے نبی کریم ﷺ سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں کوئی نشانی دکھا ئیں تو نبی کریم ﷺ نے انہیں چاند دو ٹکڑے کرکے دکھا یا ۔

روایت مذکورہ میں  ’’مرۃ‘‘  سے  چاند کی ذات  مراد ہےکہ وہ دو ٹکڑے ہو گیا تھا، اگر فعل کے تعدد کے لیے یہ لفظ لیا جائے تو معنی یہ ہوگا کہ چاند کے ٹکڑے ہونے کا عمل دو مرتبہ ہوا، حال آں کہ یہ معنی مراد نہیں،لہذا یہاں ’’مرۃ‘‘ کا لفظ ذات کے تعدد کو بتانے کے لیے آیا ہے،  اسی طرح قرآن کی آیت ”نؤتها أجرها مرتین“ میں بھی  ”مرة“ سے  عین یعنی دوگنا اجرمراد ہے، فعل مراد نہیں، فعلِ ایتاء دو  مرتبہ ہونا مراد نہیں کہ  ایک گنا اجر دو مرتبہ ملے گا، بلکہ ایک مرتبہ میں دوگنا اجر ملنے کی بشارت ہے۔

مرۃ فعلی اور مرۃ عینی میں فرق یہ ہے کہ  مرۃ عینی میں مرتین ومرات کا اجتماع ایک زمانہ میں ایک متکلم کی جانب سےممکن ہے،لیکن مرۃ فعلی میں مرۃاور مرات کا اجتماع ایک زمانہ میں ایک متکلم کی جانب سے نہیں ہوسکتا،اس کی وجہ یہ ہے کہ فعل، مثلی چیز ہے اور دو مثل کا  صدور ایک ہی فاعل سے ایک ہی وقت  میں محال ہے، جیسے قرآنِ کریم میں لعان کے بارے میں حکم ہے”أربع شهادات بالله“یعنی چار مرتبہ اللہ کو گواہ بنانا ہے، یہاں ”أربع شهادات“  میں شہادت ایک فعل ہے، لہذا  "أربع" یعنی چار گواہیوں  کا الگ الگ زمانہ میں پایا جانا ضروری ہے، ایک ہی زمانہ میں ان کا تصور نا ممکن ہے کہ ایک آدمی چار مرتبہ گواہی ایک ہی  جملہ میں کردے، لہذا اگر لعان والا یہ کہتا ہےکہ"أشهد بالله أربع شهادات بأني صادق"(میں چار مرتبہ اللہ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں سچا ہوں)تو یہ ایک ہی  شہادت شمار ہوگی، چار نہیں۔

اسی طرح   "الطلاق مرتان" میں ’’مرۃ ‘‘  سے ’’مرۃ فعلیہ‘‘  (شوہر کا فعل یعنی ایقاعِ طلاق)مراد نہیں، بلکہ ’’مرۃ‘‘  کی وہ قسم مراد ہے جس سے عین کا تعدد مراد ہوتا ہے، اور’’مرۃ عینیہ‘‘ میں مرتین اور مرات کا تصور آنِ واحد میں ممکن ہے، لہذا "الطلاق مرتان" میں ’’مرتان‘‘  جس طرح دو وقفہ والی طلاق کو شامل ہے، اسی طرح دو اکٹھی طلاقوں کو بھی شامل ہوگا، جب اس آیت "الطلاق مرتان" سے دو اکٹھی طلاقوں کا وقوع ثابت ہوگیا تو اسی آیت سے تین طلاقوں کے اکٹھے وقوع کا ثبوت بھی ہوجائے گا، کیوں کہ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔

’’إغاثة اللهفان‘‘  میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’مرتین اور مرات سے کبھی فعل مراد ہوتا ہے اور کبھی عین مراد ہوتا ہے، لیکن اس کا اکثر استعمال افعال میں ہوتا ہے، بہر حال عین کی مثال جیسے حدیث میں آتا ہے کہ آپﷺ کے زمانہ چاند دو ٹکڑے  ہوئے  اور جب یہ بات مخفی ہوئی  اس شخص پر جس کو اس کا پورا علم نہیں تو وہ یہ کہنے لگتا ہے کہ شقِ قمر ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ یعنی دو مرتبہ الگ الگ زمانوں میں ہوا، حال آں کہ حدیث کا علم رکھنے والے اور آپﷺ کے احوال وسیرت سے تعلق رکھنے والے یہ جانتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے،  شقِ قمر صرف ایک ہی مرتبہ ہوا ہے، لیکن یہ اور اس کی طرح دیگر  لوگوں نے یہاں مرتین کو مرۃ زمانی  یعنی فعلی سمجھ لیااور مرۃ  کی یہ قسم یعنی مرۃعینی وہ ہے جس میں مرتین کا ایک زمانہ میں اجتماع ممکن ہے۔ رہا مرۃ فعلی تو اس میں مرتین کا ایک زمانہ  میں اجتماع محال ہے،  اس لیے کہ مرتین من الفعل مثلین ہے اور دو مثلی چیزوں کا اجتماع محال ہے اور اس کی نظیر ایک وقت میں ایک ہی متکلم سے اجتماع ہے اور یہ بالکل محال ہے ‘‘۔

آگے تحریر فرماتے ہیں:

’’لیکن یہ اور اس کی طرح دیگر  لوگوں نے یہاں مرتین کو مرۃ زمانی یعنی فعلی سمجھ لیا،  اسی طرح  نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ  اور يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ  میں مرۃ سے مرۃعینی مراد ہے، جس میں مرتین کا ایک زمانہ میں اجتماع ممکن ہے، رہا مرۃ فعلی تو اس میں مرتین کا ایک زمانہ  میں اجتماع محال ہے، اس لیے کہ مرۃ فعلی مثلی ہے اور دو مثلی چیزوں کا اجتماع محال ہے اور اس کی نظیر یہ ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک طالب علم دو حرفوں کی ادائیگی کرے، یہ محال ہے‘‘۔

 مزید لکھتے ہیں:

’’یہی وجہ ہے کہ امام مالک اور جمہور علماء یہ کہتے ہیں کہ جو شخص سات کنکریاں لے کر ایک ساتھ جمرات پر مارے تو وہ ایک ہی شمار ہوگی، اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ ہر کنکری علیحدہ مارے‘‘.

آگے لکھتے ہیں:

’’صحیح حدیث میں ہے: جو شخص ایک دن میں سو مرتبہ"سُبْحَانَ اللهِ وَبحَمْدِهِ" کہے تو اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اگرچہ سمندر کی جھاگ کی برابر ہوں،  اب اگر کوئی شخص یہ کہے:’’سبحان الله وبحمده مائة مرة‘‘ (میں اللہ کی پاکی اس کی تعریف کے ساتھ سو مرتبہ بیان کرتا ہوں) تو وہ مذکورہ ثواب کا مستحق نہیں ہوگا، بلکہ یہ ایک تسبیح شمار ہوگی، اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ: تم ہر نماز کے بعد  33 مرتبہ سبحان اللہ ، 33 مرتبہ الحمد للہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر کہو، اب اگر کوئی شخص یہ کہے :" سبحان الله ثلاثاً وثلاثين " (میں اللہ کی پاکی 33 مرتبہ بیان کرتا ہوں) تو وہ 33 مرتبہ تسبیح کرنے والا شمار نہیں ہوگا، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک ایک کرکے 33 مرتبہ سبحان اللہ پڑھے، اس طرح کی کئی مثالیں قرآن و حدیث میں موجود ہیں‘‘۔  (1)

ا علاء السنن میں ہے  :

’’ابن قیم رحمہ اللہ کے اس کلام سے یہ بات صراحتاً معلوم ہوگئی کہ مرتین اعیان یعنی غیر افعال میں اعداد کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور ’’الطلاق مرتان‘‘  میں لفظِ  طلاق سے مراد فعل نہیں (بلکہ عین ہے)اس لیے کہ یہ عورت کی صفت ہے، نہ کہ شوہر  کا فعل یعنی  ایقاعِ طلاق‘‘۔ (2)

امام جصاص رحمہ اللہ ’’احکام القرآن‘‘  میں فرماتے ہیں:

’’جب آیت کے مضمون میں اس طرح سے دو طلاقوں کے وقوع کے جواز کا حکم ثابت ہوگیا تو یہ دلالت کرتا ہے  اس صورت میں بھی دو طلاقوں کے وقوع کے صحیح ہونے پر جب یہ اکٹھی واقع کی جائیں؛ اس لیے کہ کسی نے ان دونوں کے درمیان فرق نہیں کیا، اور اس آیت  میں اس پر دوسری طرح سے بھی دلالت ہے اور وہ اللہ تعالی کا ارشاد {فلا تحل له} یعنی تیسری  طلاق کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہیں،  پس دو کے بعد تیسری  کے ذریعہ  اس پر حرمت کا حکم لگا یا گیا اور اس میں کوئی فرق نہیں کیا گیا کہ ان دونوں طلاقوں کو ایک طہر میں  واقع کیا گیا ہو یا الگ الگ طہروں میں؛ لہذا اس سے تین کو اکٹھی واقع کرنے کا حکم بھی ثابت ہوجائے گا،  چاہے سنت طریقہ سے واقع کی ہو یا غیر سنت طریقہ سے، جائز طریقہ سے واقع کی ہو یا ناجائز طریقہ سے‘‘۔(3)

مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ"أنت طالق ثلاثاً"    میں مرۃ سے مرۃ عینی مراد ہے،  یعنی  مرد اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا ہے، لہذا ایک زمانہ میں تین طلاقوں کا واقع ہونا ممکن ہے، اور تینوں طلاقوں کے واقع ہونے کا حکم لگایا جائے گا، جب کہ  "حمدت مائة"میں مرۃ فعلی مراد ہے، لہذا ایک زمانہ میں سو مرتبہ تحمید ممکن نہیں۔

"أنت طالق ثلاثاً" میں مرۃ فعلی  مراد لینے کی وجوہات درج ذیل ہیں:

1۔ عبادت میں مقصود  اللہ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے ’’اِتعاب النفس ‘‘ یعنی نفس کی مشقت اور محنت ہوتی ہے،  لہذا  "حمدت مائة" میں ایک جملے سے سو مرتبہ تحمید کا ثواب نہیں ملے گا، جب کہ  طلاق اس عدد کی وجہ سے واقع ہوتی ہے جو لفظ طلاق کے ساتھ ملا ہو۔ (4)

2۔ایک ہی کلمہ میں تین طلاقیں دینے سے تین طلاقیں واقع ہو جا تی ہیں،  جمہور صحابہ، تابعین (جن میں علماءِ عربیت اور ماہرِ لسانیات بھی شامل ہیں) اور چاروں ائمہ سب کا اس پر اجماع ہے، چنانچہ فتاوی شامی میں   ہے:’’جمہور صحابہ ، تابعین اور ان کے بعد  کے  مسلم ائمہ کا یہ مذہب ہے کہ تین طلاقیں تین شمار ہوتی ہیں‘‘۔  (5)  

حوالہ جات

(1) فأجابهم الآخرون بأن المرتين والمرات يراد بها الأفعال تارةً، والأعيان تارةً. وأكثر ما تستعمل فى الأفعال. وأما الأعيان فكقوله في الحديث: "انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسولِ الله صالله تعالى عليه وآله وسلم مَرّتَيْن"، أي: شقتين وفلقتين. ولما خفى هذا على من لم يحط به علماً زعم أن الانشقاق وقع مرةً بعد مرةٍ في زمانين. وهذا مما يعلم أهل الحديث ومن له خبرة بأحوال الرسول صلى الله تعالى عليه وآله وسلم وسيرته أنه غلط، وأنه لم يقع الانشقاق إلا مرةً واحدةً، ولكن هذا وأمثاله فهموا من قوله: "مرتين" المرة الزمانية، إذا عرف هذا فقوله: {نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ} وقوله: {يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ} أى ضعفين فيؤتون أجرهم مضاعفاً. وهذا يمكن اجتماع المرتين منه في زمان واحد.

وأما المرتان من الفعل فمحال اجتماعهما في زمن واحد، فإنهما مثلان، واجتماع المثلين محال وهو نظير اجتماع حرفين في آن واحد من متعلم واحد، وهذا مستحيل قطعاً فيستحيل أن يكون مرتا الطلاق في إيقاع واحد. ولهذا جعل مالك وجمهور العلماء من رمى الجمار بسبع حصيات جملة أنه غير مؤد للواجب عليه، وإنما يستحب له رمي حصاة واحدة، فهي رمية لا سبع رميات، واتفقوا كلهم على أنه لو قال في اللعان: أشهد بالله أربع شهادات أني صادق، كانت شهادةً واحدةً. وفي الحديث الصحيح: "مَنْ قَالَ في يَوْمٍ سُبْحَانَ اللهِ وَبحَمْدِهِ مِائَةَ مَرَّةٍ حُطّتْ عَنْهُ خَطَايَاهُ وَلَوْ كانَتْ مِثْلَ زَبَدَ الْبَحْرِ". فلو قال: سبحان الله وبحمده مائة مرة، هذا اللفظ، لم يستحق الثواب المذكور وكانت تسبيحةً واحدةً، وكذلك قوله: "تُسَبِّحُونَ اللهَ دُبُرَ كُلِّ صلاةٍ ثَلاثاَ وَثَلاَثِينَ، وَتحْمَدُونَ ثَلاثاً وَثَلاثِين، وَتُكَبِّرُونَ أَرْبَعاً وَثلاثِينَ" لو قال: سبحان الله ثلاثاً وثلاثين، لم يكن مسبحاً هذا العدد حتى يأتى به واحدةً بعد واحدة، ونظائر ذلك في الكتاب والسنة أكثر من أن تذكر". ( إغاثة اللهفان من مصائد الشیطان،ج:۱ص:۳۰۰ط:مکتبة المعارف،الریاض)

(2) إعلاء السنن، الإنقاذ من الشبهات فی إنفاذ المکروه من الطلقات،ج:۱۱ص:۱۷۳:

”و هذا الکلام صریح فی استعمال المرتین بمعنی العددین فی الأعیان أي فی غیرالأفعال والطلاق في قوله تعالیٰ: {الطلاق مرتان} عنی بمعنی أنه لیس بفعل؛ لأنه صفة المرأة لا فعل الزوج أعني إیقاع الطلاق، فاندفع احتجاجهم بالآية أیضاً“.

 (3)    أحكام القرآن ج:۱ص:۳۸۶:

”فاذاکان في مضمون الآية الحکم بجواز وقوع الاثنیتین علی هذا الوجه دل علی صحة وقوعها لو أوقعها معاً؛ لأن أحداً لم یفرق بینهما، وفيها الدلالة عليه من وجه آخر و هو قوله تعالی: {فلاتحل له من بعد حتی تنکح زوجاً غیره} فحکم بتحریمها عليه بالثالثة بعد الاثنتین ولم یفرق بین إیقاعها في طهر واحد أو في أطهار، فوجب الحکم بإیقاع الجمیع علی أي وجه أوقعه من مسنون أو غیر مسنون ومباح أو محظور“. 

(4)     رد المحتار (3 / 287) ط: سعید:

[مطلب الطلاق يقع بعدد قرن به لا به]

(قوله: والطلاق يقع بعدد قرن به لا به) أي متى قرن الطلاق بالعدد كان الوقوع بالعدد؛ بدليل ما أجمعوا عليه من أنه لو قال لغير المدخول بها: أنت طالق ثلاثاً طلقت ثلاثاً، ولو كان الوقوع بطالق لبانت لا إلى عدة فلغا العدد، ومن أنه لو قال: أنت طالق واحدةً إن شاء الله لم يقع شيء ولو كان الوقوع بطالق لكان العدد فاصلاً فوقع".

(5)     رد المحتار، کتاب الطلاق،ج:۳ص:۲۳۳ط:سعید:

"وذهب جمهور الصحابة و التابعین و من بعدهم من أئمة المسلمین إلی أنه ثلاث". فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 143909201837

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں