مسجد کے امام صاحب سورہ یٰس ۲۳ پارہ جب سٹارٹ ہوتا ہے {وَمَا لِيَ لَا أَعْبُد الَّذِي فَطَرَنِي}جو لفظ{فَطَرَنیِ} ہے، اس کو پڑھتے ہیں۔ {فطّرَنیِ} یعنی ط پہ شد ڈال کے پڑھتے ہیں، کیا یہ لفظ درست ہے؟ {فَطَرَنیِ} اور {فطّرَنیِ} کے معنی کیا ایک ہی ہیں؟ اور ان دونوں الفاظ کا مادہ کیا ہے?
’’فطر‘‘ (طاء خفیفہ کے ساتھ)کا معنی ہے: پیدا کرنا ،ایجاد کرنا ۔ ’’فَطَّرَ‘‘(طاء کی تشدید کے ساتھ ) مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے، ان معانی میں ایک یہ بھی ہے کہ یہ ’’فَطَرَ‘‘(خفیفہ)کے مبالغہ کے لیے استعمال ہوتا ہے، لہذا اگرواقعۃً امام صاحب سورہ یس میں {فَطَرَنیِ} میں طاءِ خفیفہ کے بجائے طاءِ مشددہ پڑھتے ہیں تو اس کی اصلاح تو ضروری ہے، تاہم ایسا پڑھنے کے باوجود نماز ہوجاتی ہے، اس سے نماز کی صحت پر فرق نہیں پڑتا، لہذا اسے مسجد میں نزاع کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
معجم المعانی الجامع مٰیں ہے:
فتوی نمبر : 144012201420
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن