بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام سلام کے بعد دائیں طرف رخ کرے یا بائیں طرف؟


سوال

فجر اور عصر کے بعد امام شمال یا جنوب کی طرف رخ کرتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ کسی حدیث سے ثابت ہے؟

جواب

جن نمازوں کے بعد سنتیں نہیں ہیں، یعنی فجر اور عصر ، ان کے بعد امام کو اختیار ہے کہ دائیں یا بائیں طرف منہ کرکے بیٹھے، احادیث سے دونوں صورتیں ثابت ہیں، البتہ بہتر ہے کہ امام مختلف نمازوں میں جہت بدلتا رہے، کبھی دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف منہ کرلیا کرے ، تاکہ عوام کسی ایک جہت کو ضروری نہ سمجھیں۔ 

"عَنْ عبدالله قَالَ : لَايَجْعَلَنَّ أَحَدُكُمْ لِلشَّيْطَانِ مِنْ نَفْسِهِ جُزْءًا لَايَرَى إِلَّا أَنَّ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ لَايَنْصَرِفَ إِلَّا عَنْ يَمِينِهِ، أَكْثَرُ مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ شِمَالِهِ". (الصحیح لمسلم، كِتَابٌ الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ ، بَابٌ : جَوَازُ الِانْصِرَافِ مِنَ الصَّلَاةِ عَنِ الْيَمِينِ وَالشِّمَالِ، رقم الحديث : ٧٠٧)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم میں سے کوئی شیطان کے لیے اپنے نفس میں سے حصہ مقرر نہ کرے، بایں طور کہ وہ اپنے اوپر لازم سمجھے کہ وہ نماز کے بعد دائیں طرف سے ہی پھرے؛ کیوں کہ میں نے اکثر اوقات رسول اللہ ﷺ کو بائیں طرف سے مڑتے ہوئے دیکھا ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:

" قوله في حديث ابن مسعود: ( لايجعلن أحدكم للشيطان من نفسه جزءاً: لايرى إلا أن حقاً عليه ألاينصرف إلا عن يمينه، أكثر ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينصرف عن شماله)، وفي حديث أنس: " أكثر ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينصرف عن يمينه"، وفي رواية: " كان ينصرف عن يمينه"، وجه الجمع بينهما أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يفعل تارةً هذا وتارةً هذا، فأخبر كل واحد بما اعتقد أنه الأكثر فيما يعلمه، فدل على جوازهما، ولا كراهة في واحد منهما".
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث (جس کے الفاظ یہ ہیں:تم میں سے کوئی شیطان کے لیے اپنے نفس میں سے حصہ مقرر نہ کرے، بایں طور کہ وہ اپنے اوپر لازم سمجھے کہ وہ نماز کے بعد دائیں طرف سے ہی پھرے؛ کیوں کہ میں نے اکثر اوقات رسول اللہ ﷺ کو بائیں طرف سے مڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ )اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث (جس کے الفاظ یہ ہیں: اکثر اوقات میں نے رسول اللہ ﷺ کو دائیں طرف سے مڑتے ہوئے دیکھا) اور ایک اور روایت (جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ دائیں جانب سے رُخ موڑا کرتے تھے) میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کبھی اِس طرح کرتے تھے اور کبھی اُس طرح، چناں چہ (حضرت ابن مسعود اور حضرت انس رضی اللہ عنہما میں سے) ہر ایک نے اسی کے مطابق خبر دی جسے اس نے اکثر معمول سمجھا، لہٰذا یہ دونوں صورتوں کے جواز پر دلالت کرتاہے، اور ان میں سے کسی صورت میں بھی کراہت نہیں ہے۔

قال في الدر:

"وَفِي الْخَانِيَّةِ:  يُسْتَحَبُّ لِلْإِمَامِ التَّحَوُّلُ لِيَمِينِ الْقِبْلَةِ يَعْنِي يَسَارَ الْمُصَلِّي لِتَنَفُّلٍ أَوْ وِرْدٍ. وَخَيَّرَهُ فِي الْمُنْيَةِ بَيْنَ تَحْوِيلِهِ يَمِينًا وَشِمَالًا وَأَمَامًا وَخَلْفًا وَذَهَابِهِ لِبَيْتِهِ، وَاسْتِقْبَالِهِ النَّاسَ بِوَجْهِهِ وَلَوْ دُونَ عَشَرَةٍ، مَا لَمْ يَكُنْ بِحِذَائِهِ مُصَلٍّ وَلَوْ بَعِيدًا عَلَى الْمَذْهَبِ".
وفي الرد:

"(قَوْلُهُ: وَخَيَّرَهُ إلَخْ) الضَّمِيرُ الْمَنْصُوبُ لِلْإِمَامِ، لَكِنَّ التَّخْيِيرَ الَّذِي فِي الْمُنْيَةِ هُوَ أَنَّهُ إنْ كَانَ فِي صَلَاةٍ لَا تَطَوُّعَ بَعْدَهَا، فَإِنْ شَاءَ انْحَرَفَ عَنْ يَمِينِهِ أَوْ يَسَارِهِ أَوْ ذَهَبَ إلَى حَوَائِجِهِ وَاسْتَقْبَلَ النَّاسَ بِوَجْهِهِ، وَإِنْ كَانَ بَعْدَهَا تَطَوُّعٌ وَقَامَ يُصَلِّيهِ يَتَقَدَّمُ أَوْ يَتَأَخَّرُ أَوْ يَنْحَرِفُ يَمِينًا أَوْ شِمَالًا أَوْ يَذْهَبُ إلَى بَيْتِهِ فَيَتَطَوَّعُ ثَمَّةَ. اهـ.
وَهَذَا التَّخْيِيرُ لَايُخَالِفُ مَا مَرَّ عَنْ الْخَانِيَّةِ؛ لِأَنَّهُ لِبَيَانِ الْجَوَازِ، وَذَاكَ لِبَيَانِ الْأَفْضَلِ، وَلِذَا عَلَّلَهُ فِي الْخَانِيَّةِ وَغَيْرِهَا بِأَنَّ لِلْيَمِينِ فَضْلًا عَلَى الْيَسَارِ، لَكِنَّ هَذَا لَايَخُصُّ يَمِينَ الْقِبْلَةِ، بَلْ يُقَالُ مِثْلُهُ فِي يَمِينِ الْمُصَلِّي، بَلْ فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ: أَنَّ انْحِرَافَهُ عَنْ يَمِينِهِ أَوْلَى، وَأَيَّدَهُ بِحَدِيثٍ فِي صَحِيحِ مُسْلِمٍ، وَصُحِّحَ فِي الْبَدَائِعِ التَّسْوِيَةُ بَيْنَهُمَا وَقَالَ: لِأَنَّ الْمَقْصُودَ مِنْ الِانْحِرَافِ وَهُوَ زَوَالُ الِاشْتِبَاهِ أَيْ اشْتِبَاهِ أَنَّهُ فِي الصَّلَاةِ يَحْصُلُ بِكُلٍّ مِنْهُمَا، وَقَدَّمْنَا عَنْ الْحِلْيَةِ أَنَّ الْأَحْسَنَ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ تَطَوُّعُهُ فِي مَنْزِلِهِ، لِمَا فِي سُنَنِ أَبِي دَاوُد بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ: «صَلَاةُ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهِ فِي مَسْجِدِي هَذَا إلَّا الْمَكْتُوبَةَ». قُلْت: وَإِلَّا التَّرَاوِيحَ كَمَا سَيَأْتِي فِي بَابِ الْوِتْرِ وَالنَّوَافِلِ مَعَ زِيَادَاتٍ أُخَرَ، ثُمَّ إذَا شَاءَ الذَّهَابَ انْصَرَفَ مِنْ جِهَةِ يَمِينِهِ أَوْ يَسَارِهِ، فَقَدْ صَحَّ الْأَمْرَانِ عَنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلَيْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَمَا قَالَ التِّرْمِذِيُّ. وَذَكَرَ النَّوَوِيُّ أَنَّهُ عِنْدَ اسْتِوَاءِ الْجِهَتَيْنِ فِي الْحَاجَةِ وَعَدَمِهَا، فَالْيَمِينُ أَفْضَلُ؛ لِعُمُومِ الْأَحَادِيثِ الْمُصَرِّحَةِ بِفَضْلِ الْيَمِينِ فِي بَابِ الْمَكَارِمِ وَنَحْوِهَا كَمَا فِي الْحِلْيَةِ". (الدر مع الرد :  ١/ ٥٣١-٥٣٢)
  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201405

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں