بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

الکحل کی اقسام


سوال

انگورریا کھجور سے کشیدکردہ  الکحل اورعام الکحل میں کیا فرق ہے ؟

جواب

الکحل کی دو قسمیں ہیں:ایک وہ الکحل ہے  جو منقیٰ، انگور، یا کھجور کی شراب سےحاصل کیا گیا ہو،  ایسا الکحل  بالاتفاق ناپاک ہے، کسی چیز میں اس کا استعمال اور اس کی خریدوفروخت ناجائز ہے۔

دوسری قسم الکحل کی  وہ ہے جو مذکورہ  بالا اشیاء کے علاوہ کسی اور چیز مثلاً  جو، آلو، شہد، گنا، سبزی وغیرہ سے حاصل کیاگیا ہو، اس کا استعمال اور اس کی خریدوفروخت جائز ہے۔

انگور، کھجور، چھوہارے، منقی سے کشیدہ کردہ الکحل لغوی اور شرعی اَحکام کے اعتبار سے شراب ہے، جس کی حرمت قطعی ہے اور اس کے پینے پر اجرائے حد کا حکم ہے، یہ الکحل نجاستِ غلیظہ ہے، جب کہ دیگر اشیاء سے کشیدہ کردہ الکحل یا مشروب جب تک نشہ آور نہ ہو ناجائز نہیں ہے، اگر ایسا مشروب نشہ آور ہو یا اس کی اتنی مقدار پی لی جو نشہ آور ہو تو یہ بھی ناجائز ہوگا، لیکن اس پر شرعی حد (جو شراب پینے کی حد ہے، وہ) جاری نہیں ہوگی، البتہ تلہی کے طور پر پینے کی صورت میں تعزیری سزا ہوگی، اور اس کی حرمت قطعی نہیں ہوگی۔

عموماًاستعمال کی اشیاء  پرفیوم وغیرہ میں جو الکحل استعمال ہوتا ہے وہ انگوریا کھجور وغیرہ سے حاصل نہیں کیاجاتا؛ اس لیے اس کا استعمال حرام نہیں ،  تاہم اگر احتیاط پر عمل کرتے ہوئے اس سے بھی اجتناب کیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"و أما غير الأشربة الأربعة، فليست نجسةً عند الإمام أبي حنيفة رحمه الله تعالي. و بهذا يتبين حكم الكحول المسكرة (Alcohals) التي عمت بها البلوي اليوم، فإنها تستعمل في كثير من الأدوية و العطور و المركبات الأخرى، فإنها إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبيل إلى حلتها أو طهارتها، و إن اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل على مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالى، و لايحرم استعمالها للتداوي أو لأغراض مباحة أخرى ما لم تبلغ حد الإسكار، لأنها إنما تستعمل مركبة مع المواد الأخرى، ولايحكم بنجاستها أخذاً بقول أبي حنيفة رحمه الله. و إن معظم الحكول التي تستعمل اليوم في الأودية و العطور و غيرهما لاتتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول و غيره، كما ذكرنا في باب بيوع الخمر من كتاب البيوع". (كتاب الأشربة، حكم الكحول المسكرة، ٣/ ٦٠٨، ط: مكتبة دار العلوم)

مزید تفصیل کے لیے مندرجہ ذیل فتویٰ ملاحظہ فرمائیں :

الکحل کی شرعی حیثیت


فتوی نمبر : 144106201165

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں