بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

المیر نام رکھنے کا حکم


سوال

 ( المیر ) المیر نام رکھنا کیسا ہے؟

جواب

’’اَلْمَیْر‘‘ (مَیْر) عربی زبان میں خوراک اور راشن کو کہا جاتا ہے. (مصباح اللغات)

اسی مادے  (مَارَ یَمِیْرُ مَیْرًا، باب ضرب) سے اسمِ فاعل ’’مَائِرْ‘‘  کا معنیٰ ہے: اہلِ خانہ کے کھانے کا انتظام کرنے والا۔ اور مؤنث ’’مَائِرَهْ‘‘ہے، بمعنیٰ خوراک کا انتظام کرنے والی۔ اسمِ فاعل کی صورت میں یہ نام رکھا جاسکتاہے۔ اور اگر یہ باب نصر ینصر  (مَارَ یَمُوْر مَوْرًا) سے ہو تو اس کا معنیٰ ہوگا: گھومنے والا، چکرانے والا۔ اس پہلو کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ نام مناسب نہیں ہوگا۔

اور اردو میں یہ ”میر“ استعمال ہے  جو کہ امیر کا مخفف ہے،  جس کے معنی سردار، افسر، شاہ زادہ ، راہ نما وغیرہ کے معنی میں آتا ہے۔ (اظہر اللغات)

لیکن اردو لغت میں الف لام کے ساتھ یہ اس معنی میں مستعمل نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ اس کے بجائے انبیاءِ کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم یا تابعین، صلحا یا دیگر اچھے بامعنی ناموں میں سے کوئی نام رکھ لیا جائے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200408

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں