بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اقامت کے کلمات اور اقامت کے وقت کھڑے ہونے کا حکم


سوال

1۔ اقامت میں تکبیر اور دیگر ارکان وغیرہ کا مکرر یعنی دودو مرتبہ ادا کرنا کس حدیث سے ثابت ہے جب کہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ ایک دفعہ پڑھنا ثابت ہے؟

2۔ اقامت کے وقت کب نماز کے لیے کھڑا ہونا چاہیے، شروع میں حی علی الصلاۃ  میں یا بعد میں؟ صحیح حدیث کے حوالے کے ساتھ جواب دیں!

جواب

اقامت میں کلمات کا دو مرتبہ کہنا صریح احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے، چنانچہ امام ترمذی علیہ الرحمۃ نے عنوان قائم کیا ہے "باب ماجاء أن الإقامة مثنى مثنى " اس کے تحت یہ حدیثِ مبارک ذکر کی ہے۔

 سنن الترمذي - شاكر + ألباني (1/ 370):
"عن عبد الله بن زيد قال : كان أذان رسول الله صلى الله عليه و سلم شفعاً شفعاً في الأذان والإقامة".  

یعنی  اذان کی طرح اقامت بھی دو دو کلمات ہیں ، ایک حدیثِ مبارک میں صاف وضاحت ہے کہ اقامت کے کلمات  سترہ ہیں۔

السنن الكبرى للبيهقي وفي ذيله الجوهر النقي (1/ 416):
"عن ابن محيريز أن أبا محذورة حدثه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم علمه الأذان تسع عشرة كلمةً، والإقامة سبع عشرة كلمةً".

2۔ اقامت کے شروع ہی سے امام اور مقتدیوں کو  کھڑے ہوجانا چاہیے؛ تاکہ نماز شروع  ہونے سے پہلے صفیں سیدھی ہوجائیں، اگر چہ بعض روایات میں "حی علی الصلوٰۃ" کے وقت بھی کھڑا ہونے کا ذکر ملتا ہے ، لیکن اول الذکر صورت  زیادہ بہتر ہے،

"عبد الرزاق نے ابن جریج سے، اور ابن جریج نے ابن شہاب زہری سے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام موٴذن کے "اللہ اکبر" کہتے ہی نماز کے لیے کھڑے ہوجایا کرتے تھے، یہاں تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلے پر پہنچنے سے پہلے ساری صفیں درست ہوجایا کرتی تھیں۔ (فتح الباری ۲: ۱۵۸)۔

اور علامہ سید احمد طحطاوی رحمہ اللہ نے در مختار کے حاشیہ میں فرمایا :

"ہمارے فقہائے کرام نے یہ جو فرمایا ہے کہ امام اور لوگ حي علی الفلاح پر کھڑے ہوں، اس کا ظاہر مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد بھی بیٹھے نہ رہیں، یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے پہلے کھڑے نہ ہوں؛ لہٰذا اس سے پہلے کھڑے ہونے میں کچھ حرج نہیں ہے۔ (حاشیہ در مختار ۱: ۲۱۵ مطبوعہ مکتبہ اتحاد دیوبند)؛ بلکہ بہتر ہے، تاکہ پہلے سے لوگ نماز کے لیے تیار ہوجائیں اور صفیں بھی درست ہوجائیں؛ کیوں کہ نماز میں صفیں سیدھی رکھنا نہایت اہم ؛بلکہ سنت موٴکدہ ہے، احادیث میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔ (دیکھیے: مشکاۃ شریف، کتاب الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف  ۹۷ - ۹۹ مطبوعہ مکتبہ اشرفیہ دیوبند)

 اور امام محمدرحمہ اللہ نے اپنی کتاب: کتاب الصلاۃ میں فرمایا: میں نے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے دریافت کیاکہ ایک شخص نماز کے لیے اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب مکبر حي علی الفلاح کہتا ہے تو امام صاحب نے فرمایا: لا حرج، کچھ حرج نہیں۔ پھر دریافت کیا کہ ایک شخص شروع اقامت ہی سے کھڑا ہوجاتا ہے تب بھی یہی ارشاد فرمایا: لا حرج، کچھ حرج نہیں۔ (یہ نسخہ ابھی مخطوطہ ہے ، حضرت فقیہ الامت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ  نے کتب خانہ آصفیہ حیدرآباد میں دیکھا تھا، فتاوی محمودیہ ۵: ۴۹۶، سوال:۲۲۸۲ مطبوعہ ادارہٴ صدیق، ڈابھیل، گجرات)۔

نص الطحطاوي فی الحاشیة علی الدر هکذا:

"(قوله:والقیام لإمام وموٴتم الخ )مسارعة لامتثال أمره، والظاهر أنه احتراز عن التاخیر لا التقدیم، حتی لو قام أول الإقامة لا بأس اهـ، وکلمة ” لا بأس“ هنا مستعملة في المندوب." فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200251

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں