بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اقامت سے پہلے یا بعد میں صفیں درست کروانا


سوال

ہماری مسجد کے امام صاحب اقامت کہے جانے سے پہلے اعلان فرماتے ہیں: "استووا، أقیموا صفوفکم و اعتدلوا"،  پھر اردو میں کہتے ہیں: صفیں سیدھی رکھیں، وغیرہ۔  اس سلسلہ میں پوچھنا یہ ہے کہ امام صاحب کو یہ اعلان کب کرنا چاہیے؟ بعض مصلیان کہتے ہیں کہ اقامت سے پہلے اور بعض مصلیان کہتے ہیں کہ اقامت کہے جانے کے بعد یہ اعلان ہونا چاہیے؟

جواب

اقامت شروع ہونے سے قبل اور اقامت کے بعد تکبیر تحریمہ سے قبل، دونوں طرح صفیں درست کرنے یا صفیں درست کروانے کے لیے عربی یامقامی زبان میں کچھ کلمات کہنا جائز ہے، البتہ روایات سے معلوم   ہوتاہے کہ رسولِ کریم ﷺاور صحابہ کرام اقامت کے بعد تکبیر تحریمہ سےقبل صفوں کی درستی کا اعلان فرماتے تھے،لیکن اقامت سے پہلے ان کلمات کاکہنا بھی خلافِ شریعت نہیں ۔

بخاری شریف میں ہے :

"حدثنا أنس قال: أقيمت الصلاة، فأقبل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بوجهه، فقال: أقيموا صفوفكم وتراصوا؛ فإني أراكم من وراء ظهري".

ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نماز قائم کی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا چہرہ انور ہماری طرف کرکے فرمایا: تم لوگ اپنی صفوں کو درست کر لو اور مل کر کھڑے ہو؛ اس لیے کہ میں تمہیں اپنی  پیٹھ  کے  پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔

ترمذی شریف میں ہے :

"عن النعمان بن بشير قال: كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يسوي صفوفنا، فخرج يومًا فرأى رجلًا خارجًا صدره عن القوم، فقال: لتسون الصفوف أو ليخالفن الله بين وجوهكم. [ قال: ] وفي الباب عن جابر بن سمرة، و البراء، و جابر بن عبد الله، و أنس، و أبي هريرة، و عائشة. قال أبو عيسى: حديث النعمان [ بن بشير ] حديث حسن صحيح. وقد روى عن النبي صلى الله عليه و سلم أنه قال: من تمام الصلاة إقامة الصف. وروى عن عمر أنه كان يوكل رجالًا بإقامة الصفوف؛ فلايكبر حتى يخبر أن الصفوف قد استوت. وروى عن علي و عثمان أنهما كانا يتعاهدان ذلك، ويقولان: استووا، وكان علي يقول: تقدم يا فلان! تأخر يا فلان!"

ترجمہ :حضرت  نعمان بن بشیررضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کو درست فرمایا کرتے تھے، ایک مرتبہ  آپ ﷺ نکلے تو آپﷺنے ایک شخص کو دیکھا، اس کا سینہ صف سے آگے بڑھا ہوا تھا آپ ﷺنے فرمایا تم اپنی صفوں کو سیدھا کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ پھوٹ ڈال دے گا تمہارے دلوں میں۔ اس باب میں حضرت جابر بن سمرہ ،براء ،جابر بن عبداللہ، انس ،ابوہریرہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی روایات مروی ہیں. امام ابوعیسٰی فرماتے ہیں کہ نعمان بن بشیر کی مروی حدیث حسن صحیح ہے. اور مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صفوں کو سیدھا کرنا نماز کو پورا کرنے میں شامل ہے.  اور مروی ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہ وہ ایک آدمی کو صفیں سیدھی کرنے کے لیے مقرر کرتے تھے اور اس وقت تک تکبیر نہ کہتے جب تک انہیں بتا نہ دیا جاتا کہ صفیں سیدھی ہوگئی ہیں۔  مروی ہے حضرت علی اور عثمان رضی اللہ عنہماسے کہ وہ دونوں بھی یہی کام کرتے اور فرمایا کرتے:  برابر ہو جاؤ۔  اور حضرت علی فرمایا کرتے: اے فلاں آگے ہو جاؤ ! اے فلاں پیچھے ہو جاؤ۔

موطاامام مالک میں ہے:

"عن مالك بن أبي عامر أن عثمان بن عفان كان يقول في خطبته قل ما يدع ذلك إذا خطب: إذا قام الإمام يخطب يوم الجمعة فاستمعوا وأنصتوا؛ فإن للمنصت الذي لايسمع من الحظ مثل ما للمنصت السامع، فإذا قامت الصلاة فاعدلوا الصفوف وحاذوا بالمناكب؛ فإن اعتدال الصفوف من تمام الصلاة. ثم لايكبر حتى يأتيه رجال قد وكلهم بتسوية الصفوف، فيخبرونه أن قد استوت فيكبر".

ترجمہ: مالک بن ابی عامر سے روایت ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جب خطبہ کو کھڑے ہوتے تو اکثر کہا کرتےتھے: اے لوگو! جب امام کھڑا ہو خطبہ کے لیے تو سنو خطبہ کو اور چپ رہو ؛ کیوں کہ جو شخص چپ رہے گا اور خطبہ اس کو نہ سنائی دے گا اس کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا جتنا اس شخص کو ملے گا جو چپ رہے اور خطبہ اس کو سنائی دے۔  اور جب تکبیر ہو نماز کی تو برابر کرو صفوں کو اور برابر کرو مونڈھوں کو؛ کیوں کہ صفیں برابر کرنا نماز کا تتمہ ہے۔  پھر  حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس وقت تک تکبیرِ تحریمہ نہیں  کہتے تھے جب تک کہ وہ لوگ صفیں درست ہونے کی خبر نہ دے دیتے جنہیں آپ رضی اللہ عنہ نے صفیں درست کروانے پر مقرر کیا ہوا تھا، چناں چہ جب وہ خبر دیتے اس وقت آپ تکبیر تحریمہ کہتے تھے ۔

اللباب میں ہے :

"(ويصف) الإمام (الرجال ثم الصبيان) إن تعددوا؛ فلو واحد دخل في الصف، ولايقوم وحده، ثم الخنائي، ولو منفردة ثم (النساء) كذلك، قال الشمني: وينبغي للإمام أن يأمرهم بأن يتراصوا، ويسدوا الخلل، ويسووا مناكبهم، ويقف وسطا. اهـ." (1/40)

تبیین الحقائق میں ہے :

"وينبغي للقوم إذا قاموا إلى الصلاة أن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا بين مناكبهم في الصفوف، ولا بأس أن يأمرهم الإمام بذلك؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: {سووا صفوفكم؛ فإن تسوية الصف من تمام الصلاة}". (2/166)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201933

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں