بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اشاروں میں کسی سے تحلی کی بات کرنا


سوال

اگر کسی نے بیوی کو طلاق دی ہو، اب اگر وہ حلالہ کرنا چاہتا ہے اور کسی کو کوئی پتا نہیں ہے تو وہ خود کسی کو کہہ سکتا ہے باتوں باتوں میں  کہ حلالے کے بارے میں کچھ معلومات بھیج دے یا ایسا کہہ دے کہ مشکل میں ہوں، کاش کوئی میری مدد کرے اللہ کی رضا کے لیے اور وہ سمجھ جائے۔ زبان سے کچھ نہ کہے کہ میری بیوی سے حلالہ کردو۔تب بھی لعنت  ہوگی؟ یا ایسا کوئی طریقہ جس سے بندہ لعنتی بھی نہ ہو اور حلالہ بھی ہوجائے۔

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص بیوی کو تین طلاق دے دے تو اسے بیوی سے نہ رجوع کا حق ہوتاہے، نہ ہی تجدیدِ نکاح کی اجازت، اور عدت گزرنے کے بعد اس کی بیوی اس کے نکاح سے بالکل آزاد ہوجاتی ہے، وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے، پہلے شوہر کو تین طلاق دینے کے بعد بیوی کو اپنے ساتھ نکاح کا پابند بنانے کا (جب کہ بیوی ساتھ نہ رہنا چاہ رہی ہو)  کوئی حق نہیں ہے، اتنے بڑے اور آخری فیصلے کے بعد پہلے شوہر کو اس معاملے سے لاتعلق ہوجانا چاہیے، اگر وہ اپنا نکاح اس عورت سے جائز کرنے کے لیے خود بیوی کا کہیں اور نکاح کرواتاہے، اور اس عمل میں حصہ بنتاہے تو ایسے شخص پر حدیثِ پاک میں لعنت ہے، اور یہ فطری غیرت کے خلاف بھی ہے۔  تاہم اگر بیوی خود کہیں نکاح کرتی ہے اور دوسرا شوہر ازدواجی تعلق قائم کرنے کے بعد خود اسے طلاق دے دیتاہے یا اس کا انتقال ہوجاتاہے اور دوسرے شوہر کی عدت بھی گزر جاتی ہے تو عورت پہلے شوہر سے اپنی مرضی سے نکاح کرسکتی ہے۔

مذکورہ تفصیل ذہن نشین کرلینے کے بعد اب آپ کو اپنے سوال کا جواب معلوم ہوجانا چاہیے کہ اگر وہ شخص سوال میں مذکورہ جملے کہنے کے بعد اس نکاح میں شریک رہتاہے تو اس کی شرعاً اجازت نہیں ہے یا وہ (طلاق دینے والا) خود  بغرضِ تحلیل دوسرے شخص سے نکاح  کرنا چاہ رہاہے تو یہ جذبہ شرعاً  درست نہیں ہوگا، اور اگر اس کی بیوی خود چاہتی ہے کہ وہ پہلے شوہر کے ساتھ رہے، اور وہ خود کہیں نکاح کرتی ہے، یا پہلا شوہر کسی کو صرف معاملے کی خبر دینے کے لیے کہے کہ ’’مشکل میں ہوں، کاش کوئی میری مدد کرے اللہ کی رضا کے لیے‘‘ اور یہ بتادے کہ میں نے تین طلاق دے دی ہیں اور میں اس پریشانی کا شکار ہوں، پھر اس معاملے میں وہ بالکل حصہ نہ بنے اور دوسرا شخص یہ معاملہ سمجھ جائے اور از خود مطلقہ بیوی سے نکاح کرلے اور نکاح میں پہلے شوہر کے لیے حلال ہونے  کی شرط نہ ہو اور دوسرے شوہر کی نیت بھی صرف شہوت پوری کرنا نہ ہو تو ایسی صورت میں اگر دوسراشوہر  ازدواجی تعلق قائم کرے اور اپنے اختیار سے بیوی کو طلاق دے دے تو مذکورہ عمل کرنے والے کو لعنت کا مورد نہیں کہا جائےگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 415):
"(أما إذا أضمر ذلك لا) يكره (وكان) الرجل (مأجورا) لقصد الإصلاح، وتأويل اللعن إذا شرط الأجر، ذكره البزازي".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200934

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں